کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 53
اسامہ بن لادن اورالقاعدہ، دوسرا ٹارگٹ طالبان اور تیسرا ٹارگٹ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ ہے۔
۵۔ مجموعی طور پر تین باتیں ہیں جن میں امریکہ ہم سے سپورٹ مانگ رہا ہے، پہلی: انٹیلی جنس اور انفارمیشن کا تبادلہ، دوسری مدد: ہماری فضائی حدود کا استعمال، تیسری لاجسٹک سپورٹ، ان کی تفصیلات کا ابھی تک ہمیں پتہ نہیں ۔
۶۔ جوکچھ کہ امریکہ کے ارادے ہیں ، انہیں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل اور جنرل اسمبلی کی تائید حاصل ہے، جنرل اسمبلی نے دہشت گردی سے جنگ کرنے کی قرار داد منظور کی ہے۔ یہ قرارداد ان لوگوں کو سزا دینے کی قرار داد ہے جو دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں ۔ تمام اسلامی ممالک نے اس قرارداد کی حمایت کی ہے۔
۷۔ جنرل مشرف کے بقول : غور کرنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے اہداف میں کہیں بھی اسلام یا افغانستان کے عوام کے خلاف کسی قسم کے جنگ کی بات نہیں کی ہے۔
۸۔ پاکستان کے لئے ۱۹۷۱ء کے بعد یہ سب سے زیادہ نازک دور ہے۔ اگر ہم نے صحیح فیصلے کئے تو اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں ۔ اگر ہم نے غلط فیصلے کئے تو اس کے بدترین نتائج ہوسکتے ہیں ۔ بدترین نتائج سے خدانخواستہ ہماری سا لمیت اور بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ہمارے اہم مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہماری جوہری طاقت اور کشمیر کاز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
۹۔ میں نے حالات کا مکمل جائزہ لیا۔ کور کمانڈر، سروسز چیف، کابینہ، نیشنل سیکورٹی کونسل سے مشاورت کی، میڈیا، علما اورسیاستدانوں سے بات کی۔ میں نے دیکھا کہ رائے کسی حد تک منقسم ہے لیکن بہت بھاری اکثریت حکمت اور تحمل کے حق میں ہے۔ دس پندرہ فیصد لوگ جذباتی فیصلے کی طرف مائل ہیں ۔
۱۰۔ ہمارے ہمسایہ ملک کے کیا عزائم ہیں ؟ انہوں نے اپنے اڈے، سہولیات اور تمام لاجسٹک سپورٹ امریکہ کو فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ ان کے ساتھ ہوجائے اور پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے اور ہمارے دفاعی اثاثوں اورکشمیر کاز کو نقصان پہنچایا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگر افغانستان میں کوئی تبدیلی آئی تو وہاں ایک پاکستان مخالف گورنمنٹ کو تشکیل دیا جائے۔ آپ ان کے ٹیلی ویژن دیکھیں ، صبح، دوپہر، شام ہمارے خلاف پراپیگنڈہ چل رہا ہے۔ ان کو میں کہنا چاہتا ہوں ۔ "Lay off" (یعنی ہم سے دور رہو، ہمارے قریب نہ آنا)۔
۱۱۔ فیصلے میں حق کی بالادستی ہونی چاہئے اوریہ فیصلہ اسلام کے عین مطابق ہونا چاہئے اورابھی تک جو