کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 51
اگر حکومت نے امریکی مطالبات منظور کئے تو یہ فوجی لحاظ سے مہلک فیصلہ ہوگا۔“ (نوائے وقت) امریکہ سے ’مکمل‘ اور ’ہرطرح‘کا تعاون واضح نہیں تھا۔ حکومت کی جانب سے بھی شروع میں تفصیلات میں جانے سے مصلحتاً گریز کیا گیا کیونکہ امریکہ سے کسی قسم کا تعاون کرنا ایک حساس معاملہ ہے۔ البتہ غیر ملکی پریس میں مطالبات کی فہرست بھی شائع ہوگئی۔ ۱۶ ستمبر کو روزنامہ ’ڈان‘ نے ادارتی نوٹ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ”امریکی مطالبات کا اعلان اگرچہ نہیں کیا گیا ہے، لیکن پریس کی رپورٹوں سے کم از کم چار درج ذیل مطالبات کا پتہ چلا ہے : ۱۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ۲۔ افغانستان کے ساتھ سرحد کی بندش ۳۔ افغانستان کو خوراک کی فراہمی کا انقطاع ۴۔ فضائی حدود کے استعمال کی اجازت امریکی صدر کی طرف سے والہانہ تشکر کے اظہار اورپاکستانی وزیرخارجہ کی طرف سے پراسرار سکوت نے پاکستانی عوام میں شدید ردّعمل پیدا کیا۔ امریکہ سے تعاون کے فیصلہ کے خلاف قومی سطح پر پہلی دفعہ بھرپور مخالفت ۱۶/ ستمبر کو جماعت اسلامی کی دعوت پر منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں دیکھنے میں آئی۔ اس کانفرنس میں تمام قابل ذکر دینی ومذہبی جماعتوں کے راہنماؤں کے علاوہ درجنوں بظاہر سیکولر سیاسی جماعتوں کے راہنما بھی شریک ہوئے۔ ان میں نوابزادہ نصراللہ خان، اسفند یار ولی (صدر اے این پی)، اجمل خان خٹک( صدر این اے پی)، سید کبیرعلی واسطی (صدر پاکستان مسلم لیگ،قاسم)، سردار فاروق احمد لغاری، اعجاز الحق، سید فخرامام، جاوید ہاشمی، فتح یاب علی خان(صدر پاکستان مزدور کسان پارٹی)، سید ضیاعباس( جنرل سیکرٹری نیشنل پیپلزپارٹی)، ڈاکٹر عبدالحئ بلوچ (صدربلوچستان نیشنل موومنٹ) حمیدالدین احمد مشرقی (قائد خاکسار تحریک)، رانا محمد اشرف خان (سیکرٹری جنرل پاکستان مسلم لیگ فنکشنل)، یونس مسیح بھٹی (سینئر نائب صدر پاکستان کرسچین نیشنل پارٹی)، ملک حیدر عثمان (سیکرٹری جنرل مسلم لیگ ،جونیجو)، جنرل اسلم بیگ، جنرل (ر) حمیدگل کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔ کانفرنس نے نیویارک اور واشنگٹن میں ہونے والے المناک واقعات پر اپنے شدید دکھ اور رنج کا اظہار کیا اوردہشت گردی کی شدید مذمت کی۔ کانفرنس نے اپنی مفصل قرارداد میں کہا کہ اپنی تحقیقات مکمل کرنے سے قبل ہی امریکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کومطالبات کی کوئی فہرست فراہم کرکے ان کی پابندی پر اصرار کرنا شدید زیادتی، ناانصافی اور غیر دوستانہ طرزِعمل ہے جو پاکستان کو عدمِ استحکام کا شکار کرسکتا ہے۔ حکومت ِپاکستان کو بھی ان مطالبات کی نوعیت کے بارے میں اپنے عوام کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ قرارداد کا آخری حصہ یوں ہے: