کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 50
کتاب: محدث شمارہ 253 مصنف: حافظ عبدالرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکرونظر امریکہ سے تعاون: ردّ ِعمل، خدشات و مضمرات اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، اس میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ عالمی منظر پر تیزی سے رونما ہونے والے واقعات و حالات نے پاکستان کی سا لمیت اور وقار کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ شاید ہی کوئی دو پاکستانی ایسے ہوں جو وطن عزیز کے تحفظ کو یقینی نہ دیکھنا چاہتے ہوں ۔البتہ پاکستان کی سا لمیت اور تحفظ کے لئے کیا حکمت ِعملی اختیار کی جائے اور کون سے فوری اقدامات اٹھائے جائیں ، اس کے متعلق کلی طور پر اتفاقِ رائے قومی سطح پر ابھی تک سامنے نہیں آسکا۔ ۱۱ /ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ میں خوفناک دہشت گردی کے واقعات کے بعد حکومت ِپاکستان نے امریکہ سے تعاون کے جو و عدے کئے ہیں ، ان کی موزونیت اور عدمِ موزونیت کے متعلق اختلافِ رائے کھل کر سامنے آگیا ہے۔ ۱۱/ ستمبرکے فوراً بعد پاکستان کو اعصاب شکن دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی دھاڑ رہے تھے کہ اب ہمارے ساتھ دوستی ہوگی یا دشمنی، تیسری کوئی بات قابل قبول نہیں ۔ وہ ہر صورت میں پا کستان سے طالبان کے خلاف ’تعاون‘ چاہتے تھے۔ وہ سوچنے، سمجھنے اور غور کرنے کے لئے وقت دینے کو تیارنہ تھے۔ ۱۵/ ستمبر کو واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز میں خبرشائع ہوئی کہ امریکہ نے پاکستان کے سامنے مطالبات کی فہرست رکھ دی ہے۔ ۱۶/ ستمبر کے اخبارات نے پاکستان کے وزیرخارجہ کے اس بیان کو شہ سرخی بنا کر پیش کیا ”دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری سے پورا تعاون کریں گے۔ اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کے پابند ہیں ۔ فضائی حدود اور زمینی سہولیات امریکہ کو دینے کا سوال قبل از وقت ہے۔ اپنی سرحدوں سے باہر فوجی کارروائی میں شریک نہیں ہوں گے“ (نوائے وقت)۔ اسی روز کے اخبارات میں امریکی صدر جارج بش اور سیکرٹری خارجہ کولن پاول کے بیانات بھی شائع ہوئے جس میں انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف ’مکمل‘ اور ’ہر طرح‘ کے تعاون دلانے پر شکریہ ادا کیا تھا۔ صحافیوں نے جب پاکستانی وزیرخارجہ جناب عبدالستار سے سوال کیا”اڈّے دے دیے“؟ توان کا جواب تھا: ”ان تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔“ جنرل اسلم بیگ نے اس صورتحال پر یوں تبصرہ کیا : ”امریکہ نے جس طریقے سے پاکستان کے سامنے اپنے مطالبات رکھے ہیں ، اس سے ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان کو ئی غلام ہے اور اس سے جو بھی مطالبات کئے جائیں گے، وہ پورے کرے گا۔