کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 120
درمیان علت اور معلول کا رشتہ ہے۔سینکڑوں خطوط ایسے بھی تھے جس میں مسٹر ملن کو امریکہ مخالف خیالات کے اظہار پر قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں ۔ اس کے علاوہ گارجین کو اس ہفتہ کے دوران روزانہ اوسطاً ۹۰۰ ای میل موصول ہوئیں جن میں سے اکثریت کا تعلق اسی موضوع سے تھا۔ ملن کے مضمون کے جواب میں ایک خاتون نے لکھا: ”اس مضمون میں امریکہ کے خلاف بیان کردہ نفرت نے میرا جی متلا دیا۔ میں ایک نرس ہوں جواس واقع کے متاثرین کے علاج معالجہ پر مامور ہے، میں متاثرین اور ان کے خاندانوں کو بتاؤں گی کہ جو کچھ ہوا، وہ ان کا قصور تھا کیونکہ وہ امریکی ہیں ۔“ (حوالہ گارجین: ۲۲/ ستمبر ۲۰۰۱ء انٹرنیٹ) قارئین کرام! مندرجہ بالا سطور میں محض چند غیر ملکی اخبارات اور رسالہ جات کے مختلف حوالوں کی بنیاد پر چند مغربی دانشوروں کی آرا پیش کی گئی ہیں ، دیگر اخبارات کی سکروٹنی (جانچ پڑتال) کی جائے تو اس طرح کے سینکڑوں مضامین یا کالم مل سکتے ہیں جس میں امریکی خارجہ پالیسی کے منفی نتائج کا ذکر کیا گیا ہوگا۔ امریکی صدر جارج بش اور ان کے رفقا دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ یا Crusade کا اعلان کرتے ہوئے یہ بات یکسر فراموش کردیتے ہیں کہ ان افسوسناک واقعات کے اصل محرکات کیا ہیں ۔ جب تک اصل محرکات موجود ہیں ، اسامہ بن لادن کی گرفتاری یا طالبان کی حکومت کے خاتمہ سے امریکہ کے خلاف نفرت کا خاتمہ نہیں ہوجائے گا۔ مصر کے حسنی مبارک نے امریکہ کو بالکل صحیح مشورہ دیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں اپنی پالیسی پرنظرثانی کرے۔ اس وقت امریکی حکومت کی طرف سے پاکستان پر طالبان کے خلاف تعاون کے لئے شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ حکومت ِپاکستان نے امریکہ سے اسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت طلب کرلئے ہیں ، مگر بعض سہولتوں کے دینے کی حامی بھری ہے جس کی وجہ سے اسے اندرونی طور پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکی دباؤ میں کمی لانے کے لئے ضروری ہے کہ امریکیوں پرجرأت مندی سے واضح کیا جائے کہ وہ عالم اسلام کے متعلق اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کریں ۔امریکیوں کی نفسیات یہ ہے کہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جو بات کرتا ہے، وہ اس پر اپنی دھونس کم جماتے ہیں ۔ پاکستان میں جو لوگ امریکہ کی مخالفت کررہے ہیں ، انہیں ’فتویٰ فروش مولوی‘ یا ’مٹھی بھر عناصر‘ کہہ کر ان کی تحقیر نہ کی جائے۔ امریکی دیو استبداد کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہی دورِ حاضر میں صحیح طور پر ترقی پسند کہلانے کے مستحق ہیں ۔ امریکی جارج بش اور دیگر قائدین چرچ میں باقاعدگی سے سروس ادا کررہے ہیں ۔ انہیں چاہئے کہ وہ مظلوم فاقہ زدہ افغانیوں کو ظالمانہ جنگ میں مبتلا کرنے کی بجائے اپنی کوتاہیوں پر غور کریں ۔ انہیں اپنے خلاف ہونے والی دہشت گردی کے اصل اسباب کاٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہئے، ابھی تک جو وہ منصوبے بنا رہے ہیں ، وہ بذاتِ خودجوابی دہشت گردی اور عظیم فساد کے زمرے میں آتے ہیں ۔٭