کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 119
عظیم کا الزام ہٹلر پر دھرا جائے مگر ’معاہدۂ ورسلیز‘ کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ ایک حیران کن تعداد ایسے لوگوں کی ہے جس میں سب مذہبی انتہا پسند نہیں ہیں ، جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ کافی حد تک امریکہ نے جو کچھ بویا تھا وہ اب کاٹا ہے۔ امریکہ پر یہ الزام کہ یہ عالمی سیاست میں بہت متکبرانہ کردار ادا کرتا ہے، بھی کچھ حد تک توجہ کا متقاضی ہے۔ مگریہ بہتر ہوگاکہ ذرا ماضی میں جھانک کر دیکھا جائے۔سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ نے سوویت یونین اورکمیونزم کو شکست دینے کے لئے بلاشبہ اپنے ہی قائم کردہ اصولوں کی پامالی کی۔ اس نے افریقہ اور ایشیا میں آمروں کی سرپرستی کی۔مشرقِ وسطیٰ میں حکومتوں کے تختے اُلٹے۔ عراق اورلیبیا پربے رحمانہ حملے کئے۔ عراق کے خلاف پابندیاں درحقیقت بے گناہ عراق عوام پر ظلم کے مترادف ہے۔ صدام حسین کو بجا طور پر ہزاروں بچوں کی اموات کا الزام دینے کا موقع ملتا ہے۔ امریکہ اپنے مفادات کی بعض اوقات مہارت اور بعض اوقات بے ڈھنگے طریقے سے حفاظت کرتا ہے۔حقیقت میں گذشتہ ہفتے کے خوفناک حملوں کی وجوہات تلاش کرنا مشکل ہوگا سوائے ان لوگوں کے دلوں میں نفرت کے جذبات کے جنہوں نے یہ کام کیا۔“ ( اکانومسٹ: ۲۲ /ستمبر ۲۰۰۱ء) امریکی ہفت روزہ ’ٹائم‘(یکم اکتوبر) نے Why they Hate: Roots of Rage (وہ نفرت کیوں کرتے ہیں : غصے کی جڑیں ) کے عنوان سے تین صفحات پر پھیلا ہوا ایک جامع مضمون شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں امریکہ کے خلاف عالم اسلام میں موجود ہ نفرت کو مغربی استعماریت، استحصال، مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی امتیازی ظالمانہ پالیسی، عراقی عوام کے خلاف مسلسل وحشیانہ بمباری، سعودی عرب میں امریکی افواج کی اشتعال انگیز موجودگی اور امریکہ کی جانب سے یہودیوں کی بے جا ناز برداری کے خلاف ردِعمل قرار دیا گیا ہے۔ ۱۱/ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں کی تباہی کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ نے اس واقعہ کو اس قدر ’کوریج‘ دی ہے کہ لگتا ہے، امریکی و یورپی ذرائع ابلاغ کو ہسٹریا کا مرض لاحق ہوگیاہے۔ اگرچہ اکثر اخبارات اور ٹیلی ویژن امریکی موقف ہی پیش کررہے ہیں ،مگر ان میں سے بعض استثنائی صورتیں بھی ہیں ۔ برطانوی اخبارات میں سے ’گارجین‘ نے کافی حد تک کوشش کی ہے کہ دوسرا موقف بھی پیش کیا جائے۔ خاص طور پر اس اخبار نے اپنے Comments کے صفحہ کو کافی متوازن بناکر پیش کیا۔ اس صفحہ کے انچارج Suemas Miln کا ۱۳/ ستمبر کے گارجین میں مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا: "They can't see why they are hated." اس مضمون کی حمایت میں مصنف کو دوہزارسے زیادہ ای میل موصول ہوئیں جس میں قارئین نے مصنف کی اس رائے سے اتفاق ظاہر کیا کہ امریکہ میں ہونے والی تباہی اور امریکی خارجہ پالیسی کے