کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 117
بیان پراپنا ردّ عمل ظاہر کرتے ہوئے گارجین کے ایڈیٹر کو خط لکھا : ”جناب ایہودا بارک نے مغربی تہذیب میں قانون کی حاکمیت کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کیا کہ ہم دہشت گردوں اور ان کو پناہ دینے والوں کو کس طرح نیست و نابود کرسکتے ہیں ۔ میں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ برطانیہ جسے فلسطین پر انتداب حاصل تھا، اگر اسی سخت گیری کا مظاہرہ کرتا جس کی وکالت آج جناب ایہودا بارک فرما رہے ہیں تو یقینی بات ہے پھر روئے زمین پرنہ تو کوئی اسرائیل نام کی ریاست ہوتی اور نہ بیگن اور شمیر نام کے کوئی وزیراعظم ہوتے۔ جہاں تک قانون کی حکمرانی کا تعلق ہے، جناب ایہود بارک کے ذہن میں اقوام متحدہ کے منظو رکردہ بین الاقوامی قانون کے علاوہ شاید کسی اور قانون کا خاکہ ہے۔اسرائیل نے سیکورٹی کونسل کی منظور کردہ قرارداد نمبر 242 کی خلاف ورزی کی ہے جس میں کسی علاقے کو جنگ کے ذریعے ہتھیانے کی مذمت کی گئی ہے اور اسرائیل کو مقبوضہ علاقے خالی کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس طرح اسرائیل نے قرار داد نمبر 452 کو بھی نظر انداز کیا ہے جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے میں آبادکاری کی مذمت کی گئی ہے۔ سیکورٹی کونسل کی قرار داد نمبر 495 جس میں جنیوا کنونشن کی رو سے فلسطینی آبادی کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا ہے، پر آج تک عملدرآمد نہیں کیا گیا۔یہ محض چند مثالیں ہیں جن میں اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کیا ہے اور اس پر اس کا محاسبہ نہیں ہوا۔“ اسرائیل کی طرف سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرنے کے بعد مسٹر جم یوں تبصرہ فرماتے ہیں : ”یہ بات حیران کن ہے کہ بہت سے لوگ ہٹلر کی طرف سے یہودیوں کے قتل عام (Holocaust) اور اسرائیل کے قیام کے درمیان اسباب و علل کا منطقی تعلق تو سمجھتے ہیں لیکن وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیل کی طرف سے وحشیانہ مظالم اور رویے کی وجہ سے اس کے اور اس کے مربی امریکہ کے خلاف مشرقِ وسطیٰ میں نفرت پائی جاتی ہے۔ اگر اسرائیل پر بین الاقوامی قانون لاگو کیاجاتا، تو نیویارک اور واشنگٹن کے بے گناہ لوگوں کو وہ قیمت نہ چکانی پڑتی جو بالآخر انہوں نے چکائی ہے۔ مسٹر بش اورمسٹر ٹونی بلیر جو آج ’اِقدامِ جنگ‘کی بات کر رہے ہیں ، یہ ان کے لئے دانش مندانہ امر ہوتا کہ وہ اسباب و علل بالخصوص ’اسباب‘ پر ذرا زیادہ گہرائی سے توجہ فرماتے۔“ (گارجین، انٹرنیٹ ایڈیشن) برطانوی وزیر خارجہ مسٹر جیک سٹرا (Jack Straw) نے ضمیر کی آواز سے مجبور ہوکر یا ڈپلومیسی کی زبان استعمال کرتے ہوئے مسلم ممالک کی ہمدردیاں جیتنے کے لئے چند دن پہلے یہ بیان دیا: ”دہشت گردی کو فروغ دینے میں بہت سے اسباب میں سے ایک سبب وہ غصہ ہے جو اس خطے (مشرقِ وسطیٰ) کے لوگ گذشتہ برسوں میں فلسطین میں ہونے والے واقعات کے متعلق رکھتے ہیں “ اسرائیل نے برطانوی وزیر خارجہ کے اس بیان کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے