کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 114
۱۱/ ستمبر کی شام کو امریکی صدر جارج واکربش نے دہشت گردی کے واقعات کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ” امریکہ کو ان حملوں کا ہدف اس لئے بنایا گیا ہے کیونکہ ہم دنیا میں آزادی کی روشن ترین کرن ہیں ۔“ ۲۱/ ستمبر کوکانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اپنے ’تاریخی‘ خطاب میں جارج بش نے ایک دفعہ پھر کہا:”امریکی عوام پوچھتے ہیں ، آخر وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں ؟ وہ (دہشت گرد) ہم سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ہم جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومت ہیں ۔ وہ ہماری آزادیوں ؛ آزادی ٴ مذہب، آزادی ٴ تقریر، ووٹ دینے اور اجتماع کرنے کی آزادی اور اختلافِ رائے کی آزادی سے نفرت کرتے ہیں “ (برطانوی روزنامہ گارجین: ۲۱/ ستمبر) امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کولن پاول نے مذکورہ حملوں کو انسانی تہذیب، اعلیٰ امریکی اقدار اور آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ ہیلری کلنٹن جو نیو یارک سے سینٹر منتخب ہوئی ہیں ، انہوں نے بھی ان حملوں کو اعلیٰ تہذیبی اقدار اور انسانی آزادیوں پر حملہ قرار دیا۔ متعدد دیگر امریکی راہنماؤں کے بیانات بھی اس سے ملتے جلتے ہیں ۔ کیا واقعی دہشت گردوں نے امریکہ پر حملے اس لئے کئے ہیں کہ انہیں اس بات کا شدید رنج تھا کہ امریکہ دنیا میں ’آزادی کی روشن ترین کرن‘ کیوں بنا ہوا ہے؟ کیا یہ دہشت گرد انسانی قدروں کو پھلتے پھولتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے؟ عقل عام امریکی راہنماؤں کے اس غیرمنطقی اور غیر معروضی تجزیہ کو کبھی قبول نہیں کرے گی، حقائق سے چشم پوشی کا یہی وہ رویہ ہے جو مسائل کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھانے کا باعث بناہوا ہے!! مسلمان دانشوروں کی اکثریت امریکہ میں لرزہ خیز دہشت گردی کے پس پشت یہودی سازش کو کارفرما قرار دے چکی ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کی کئی ایجنسیوں نے بھی اس عدیم النظیر دہشت گردی اور منصوبہ بندی کے پس پشت ’موساد‘ کے ملوث ہونے کے خدشات بیان کئے ہیں ۔اگریہ دہشت گردی اسرائیلی ایجنسی ’موساد‘ نے کرائی ہے تو ان کامقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ امریکہ کو مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلا کر عالم اسلام کو سخت نقصان پہنچایاجائے اور امریکہ و یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راستہ بند کردیا جائے۔ مگر مسلم اور غیرمسلم دانشوروں کی ایک کثیر تعداد جو ان دھماکوں کے متعلق کسی مسلمان تنظیم کے متعلق شبہات کا اظہار کررہے ہیں ، ان کے خیال میں بھی امریکہ پریہ حملے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی خارجہ پالیسی کے خلاف ردّعمل کانتیجہ ہیں ۔ یہ بات باعث ِاطمینان ہونی چاہئے کہ امریکہ میں بھی ابھی کچھ ایسے ہوش مند افراد موجود ہیں جو چیزوں کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم نہیں ہیں ۔ اس وقت جب کہ امریکی قیادت پر انتقام کے جذبات غالب ہیں اوروہ کسی معقول بات کو سننے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہے، کچھ امریکی دانشور اور راہنما امریکی قوم کو اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنے قومی کردار کا منصفانہ جائزہ لینے کی تلقین کررہے ہیں ۔ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ملکوں میں بھی