کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 110
مختلف طریقوں کوبڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بعض جرائم کا سبب کثرتِ مال کی حرص اور سرمایہ دارانہ نظام ہے تو بعض کا حد سے بڑھی ہوئی شہوانی پیاس ہے۔بعض جرائم مفلسی اور فقروفاقہ کا شاخسانہ ہوتے ہیں اوربعض جرائم خوشحالی اور مالی فراوانی کا نتیجہ ہیں ۔بے شمار جرائم کا سبب مذہبی، نسلی امتیازات اورفرقہ واریت ہوتا ہے۔ وہ جرائم جن میں نوجوان نسل ملوث ہوتی ہے یا جن میں عورتیں اور بچے ملوث ہوتے ہیں ، کتاب میں ان تمام جرائم کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔ [1] کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں : ”ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں وقوع پذیر ہونے والے غیر معمولی حادثات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قلق اور اضطراب نے امریکیوں کی جسمانی اور ذہنی قوتوں پر نہایت مہلک اثرات مرتب کئے ہیں ۔ چنانچہ امریکیوں نے ذ ہنی اور جسمانی تسکین کے حصول کے لئے نشہ آور اشیا کا سہارا لیا جس کی وجہ سے منشیات فروشی کی صنعت اپنے عروج پر پہنچی گئی۔ اخباروں کے صفحات جرائم، قتل وغارت، زنا کاری اور بدکاری کی وارداتوں سے بھرگئے اور بڑے بڑے عہدے داروں کی کرپشن کے واقعات اخبارات کی شہ سرخیوں میں شائع ہونے لگے ۔ اور ہمارے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ امریکہ میں جن جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے، ان کا مکمل انسائیکلو پیڈیا تیار کرتے۔ کیونکہ اس کے لئے بے شمار جلدیں درکار ہیں جن کو تصنیف کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں ۔“ چنانچہ یہ دونوں مصنف ۲۷/ ابواب پر مشتمل جرائم کی اس مطالعاتی رپورٹ کا تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں جرم ایک ایسے مضبوط اقتدار کا روپ دھار چکا ہے جو تمام قوانین کو اپنے ہاتھ میں لے کر مقننہ، انتظامیہ، عدالت اور صحافت ان چاروں ریاستی ستونوں کا مقابلہ کرنے کے لئے خم ٹھونک کرمیدان میں آگیا ہے ۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں :