کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 109
ان مغربی معاشروں کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایڈز جیسی نہایت موذی مرض ان پر مسلط کردی جو تقریباً دو عشروں سے اللہ کے عذاب کا کوڑا بن کر ان پربرس رہی ہے اورانہیں موت کے گھاٹ اتار رہی ہے لیکن افسوس کہ یہ ہولناک عذاب بھی انہیں اس اخلاقی گراوٹ اور راہِ انحراف سے نہ ہٹا سکا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ تباہی کے اس عمیق غار میں گرنے کے لئے سب سے پیش پیش ہے جہاں ایڈز کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ چنانچہ شہوانیت کی اس آگ کو غیر فطری اور غیر طبعی طریقوں سے بجھانے کا انجام یہ ہوا ہے کہ ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۱ء کے صرف ایک عشرہ میں پوری دنیا میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد ۱۳/ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ، جن میں ۳۰ ہزار تعداد صرف امریکیوں کی ہے اور خدشہ ہے کہ ۲۰۰۰ء تک اس موذی مرض کا شکار ہونے والوں کی تعداد چار کروڑ سے بھی تجاوز کرجائے گی۔ منشیات اور ڈکیتیوں کا راج: امریکیوں کی اکثریت چوری اور ڈکیتی میں بہت مہارت رکھتی ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق ۷۵ فیصد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ اگرانہیں پراعتماد اور محفوظ ذریعہ معاش میسر آجائے تو وہ ڈکیتی اور چوری کا خیال بھی دل میں نہیں لائیں گے۔ جہاں تک منشیات کا تعلق ہے تو یہ بات مسلمہ ہے کہ امریکی معاشرہ دوسری اقوامِ عالم کی نسبت شراب اور نشہ کا سب سے زیادہ رسیا ہے اور اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ ۳۵ فیصد امریکی ’میری جوائنا ‘اور ۱۵ فیصد کوکین (ایک نشہ آور چیز جسے استعمال کرنے کے بعد انسان وقتی طور پر تسکین محسوس کرتا ہے) اور ۲۴ فیصد دیگر نشہ آور اشیا کے عادی ہوچکے ہیں ۔ اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں وقوع پذیر ہونیوالے ۷۵ فیصد جرائم کا بنیادی سبب منشیات ہیں ۔(حالات فوضیٰ، صفحہ ۱۳۸/يوم أن اعترفت أمريکا،صفحہ: ۱۵۱) جن اعدادوشمار کا تذکرہ ہم گذشتہ صفحات میں کرچکے ہیں ، انہیں کلی طور پر درست اور مبنی برحقیقت تسلیم نہیں کیاجاسکتا کیونکہ امرواقعہ یہ ہے کہ جرائم کی دنیا میں بے شمار حقائق کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔ چنانچہ جیمس باٹرسون اور بیٹرکیم اپنی کتاب یوم أن اعترفت أمریکا بالحقیقة میں اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”امریکہ میں وقوع پذیر ہونے والے جرائم کے متعلق سرکاری اعدادوشمار ایک طرح کا شک پیدا کرتے ہیں ۔کیونکہ ہماری تحقیقی رپورٹ کے مطابق جرائم کی تعداد سرکاری رپورٹ کی تعداد سے ۶۰ فیصد زیادہ ہے۔‘‘ (يوم أن اعترفت أمريکا بالحقيقة،ص:۱۴۱) ان سے پہلے دو اورمصنّفین فرانک براؤن اور جان گراس نے الجریمة علی الطریقة الأمریکیة کے عنوان سے اپنی تحقیقی رپورٹ پیش کی جو ۵۱۲ صفحات پر مشتمل تھی،جس میں انہوں نے جرائم کی مختلف شکلوں اوران جرائم کے ارتکاب کے لئے انفرادی، اجتماعی، سیاسی اور تنظیمی سطح پر استعمال کئے جانے والے