کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 107
اور سپین کی نسبت ۲۰ گنا زیادہ ہیں ۔(حالات فوضیٰ، الآثار الاجتماعية للعولمة،عربی ترجمہ: عمران ابوحجیلہ، صفحہ:۱۱۹) شہوانیت کے اس عروج اور جنسی بے راہ روی کا سبب اور حقیقی محرک معاشی حالات کا بگاڑ اور روحانی قدروں کی تباہی تھا۔ معاشی حالات نے اس قدر مجبور کردیا کہ ہر فرد مرد، عورت(کنواری یا بیوہ) سب کی سب کارزارِ حیات میں نکل کھڑی ہوئیں ۔ پھر جب دونوں صنفوں میں ربط واختلاط کے مواقع بڑھے تو اس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ شہوانیت کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس آگ کے شعلوں کومزید تیز کرنے کے لئے تھیٹر، رقص گاہوں کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں برہنہ اور خوبصورت عورتوں کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ جس نے پوری قوم کو شہوانیت کی آگ بھجانے کے لئے زنا کاری اور بدکاری کے جہنم میں دھکیل دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اخلاق اور روحانیت کی بنیادیں ڈھے گئیں ، فحاشی اور زنا کاری کا بازار گرم ہوگیا اور معاشرہ راہِ راست سے ہٹ کر اخلاقی جذام میں مبتلاہوگیا اور ان کے لئے زنا کاری کاارتکاب کرنا ایسے ہی بن گیا جیسے قہوہ کا ایک کپ پی لیا یا سگریٹ سلگا لی۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ۵۳ فیصد امریکی عورتوں نے خود اقرار کیا کہ وہ اپنے خاوندوں سے خیانت کرنے میں کسی قسم کا تردّد محسوس نہیں کرتیں اور نہ ہی ان کے خاوند ان سے خیانت کرنے میں کوئی تردّد یا ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ۔ شہوانیت اور جنسی بے راہ روی کے شکار ۲۰ فیصد مردوں نے یہ اعتراف کیا کہ ان کی حیوانیت کا شکار ہونے والی عورتوں نے بذاتِ خود ان سے بدکاری کا مطالبہ کیا تھا۔ (حالات فوضیٰ، الآثار الاجتماعية للعولمة، عربی ترجمہ :عمران ابوحجیلہ، صفحہ ۱۱۹ /يوم أن اعترفت أمريکا بالحقيقة ،صفحہ ۸۸ تا ۹۹) دراصل اخلاقی نظام کی یہ تباہی اور قانونی ومعاشرتی بندشوں سے آزادی مغربی قوموں کی قوتِ حیات کو گھن کی طرح کھا رہی ہے اورحالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہر پانچویں لڑکی تیرہ سال کی عمر سے پہلے پہلے اپنی کنوارگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے اور تیرہ سال سے جوں جوں اوپر جائیں ، یہ تعداد بڑھتی جاتی ہے۔[1] جنسی آزادی اور جنس پرستی کا فروغ: مغربی اقوام میں زنا کاری کو