کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 106
شہوت کا اندھا اورزناکاری و بدکاری کا رسیا ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی عزتوں کو تار تار کرنے سے اپنا دامن محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ کسی قوم میں اگر قتل کے مجرموں کی سالانہ تعداد لاکھوں ہے تو یقینا حرام کاری کا ارتکاب کرنے والوں کی تعداد کئی ملین سے متجاوز ہوگی۔ اس بارے میں امریکہ کی سرکاری رپورٹ ملاحظہ ہو: ” امریکی معاشرہ میں زنا کے واقعات کی عمومی شرح ۳۱/ فیصد ہے اوریہ شرح ان لوگوں کے متعلق نہیں ہے جنہوں نے زناکاری کا ارتکاب ایک یا دو مرتبہ کیا ہے۔ بلکہ یہ رپورٹ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو اس جرم میں بری طرح ملوث ہوچکے ہیں ۔“ اس کے بعد رپورٹ میں یہ لکھا ہے : ”یہ رپورٹ باقی جنسی جرائم سے قطع نظر صرف زنا کاری کے متعلق ہے اورمجموعی جنسی جرائم میں سے ۲۸ فیصد جرائم زنا کاری سے متعلقہ ہیں اور یہ زنا کے وہ واقعات ہیں جو باقاعدہ عملی طور پر واقع ہوتے ہیں ۔ ۶۲ فیصد امریکی وہ ہیں جواگرچہ خود تو اس جرم میں ملوث نہیں ہیں لیکن وہ شادی کے بندھن میں بندھے بغیر آپس میں جنسی تعلقات قائم کرنے میں کوئی جرم اورعار محسوس نہیں کرتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مردوزن شہوت رانی اورلذت پرستی کے لئے بالکل آزاد ہیں ۔“ اعدادوشمار اس بات پر شاہد ہیں کہ امریکہ میں چار عورتوں میں سے ایک عورت اپنے خاوند سے خیانت کی مرتکب ہوتی ہے اور تین آدمیوں میں سے ایک آدمی اپنی بیوی سے خیانت کرتاہے اورایک دوسرے کی عزتوں کی پامالی اور جنسی تشدد صر ف بالغ اور نوجوان نسل تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ نابالغ بچے اور بچیوں کو بھی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جیسا کہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہر ساتواں امریکی بچہ اباحیت کی قربان گاہ پر چڑھ جاتا ہے[1] اوراسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ تو معصوم بچے اور بچیوں کی حالت ِزار ہے۔ رہی جوان عورتیں تو انہیں بھی جنسی جبرو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی جسمانی صحت اور روحانی قوت پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ وہ عورتیں جو اس جنسی تشدد کا شکار ہوئیں ، ان میں سے ۴۲ فیصد عورتوں نے یہ کہا کہ ان پر جنسی تشدد کرتے ہوئے انتہائی قسم کی بداخلاقی اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ باوثوق اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں ڈاکہ زنی اور لوٹ کھسوٹ کی وارداتیں ، جاپان، برطانیہ