کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 105
قتل میں صرف ایک شخص ملوث ہے۔ لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات ایک ہی قتل میں دو دو، تین تین، دس دس افراد تک شریک ہوتے ہیں ۔ تو آپ اندازہ کریں کہ اس صورت امریکیوں کی کتنی بڑی تعداد کوموت کے گھاٹ اترنا پڑے گا۔ اگر ان کے ساتھ جاسوسی، ڈاکہ زنی اور کرپشن وغیرہ کی وارداتوں کی پاداش میں قتل کے مستحق ٹھہرنے والوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو عقل ودانش سے بہرہ ور انسا ن بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اہل مغرب اس سزا کو ختم کرنے کا مطالبہ آخر کیوں کررہے ہیں ؟اور اس مطالبہ کے پس پردہ حقیقی محرک کیا ہے !! امریکہ اور مغرب کے اہل دانش اور مفکرین جو اسلامی ممالک میں شرعی احکام کے نفاذ کی وجہ سے حقوقِ انسانی کی پامالی پر آہ و بکا کر رہے ہیں ،اگر وہ انصاف سے کام لیتے ہوئے اپنے ہاں ہونے والی قتل کی وارداتوں اور قانونِ قصاص کو نافذ کرنے والے اسلامی ممالک میں ہونے والے قتل کے واقعات کا موازنہ کریں تو یقینا وہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مغربی ممالک میں ہونے والے قتل کے واقعات اسلامی ممالک کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں ۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ایک بین الاقوامی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق مملکت ِسعودی عرب میں ۱۹۸۰ء تا ۱۹۹۶ء کے دوران جن لوگوں کو قتل اور دیگر جرائم میں موت کی سزا دی گئی، ان کی تعداد صرف ۲۹ ہے۔کہاں یہ معمولی سی تعداد اور کہاں وہ لاکھوں افراد جو قطع نظر دیگر جرائم کے، صرف قتل کے الزام میں امریکہ کی جیلوں اور کال کوٹھڑیوں میں بند پڑے ہیں ۔ اے حقوق انسانی کے نام پر اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ قرار دینے والو! بتاؤ، تم اس صورت حال پر کیا تبصرہ کروگے ؟ آج ہر تین میں سے ایک امریکی اس بات کی تائید کرنے پر مجبور ہے کہ قتل پر موت کی سزا کا نفاذ ضرور ہونا چاہئے اور قاتل کو صرف قید کی سزا دینا سراسر خلافِ انصاف ہے۔ اہل مغرب جو اسلام کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اس کی سزاؤں کو وحشیانہ قرار دے رہے ہیں ،ہم ان سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ اسلامی احکام کی پیروی کریں بلکہ ہم ان سے صرف یہ گزارش کرتے ہیں کہ خدارا اسلامی معاشرہ کو خون کی وادی میں دھکیلنے سے باز آجائیں جس طرح کہ خود ان کا اپنا معاشرہ خونی یلغار کی لپیٹ میں آچکا ہے جو صرف ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہی نہیں ہیں بلکہ وہاں ہرسال سینکڑوں لوگ خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں ۔ آپ حیران ہوں گے کہ امریکی نوجوانوں میں خود کشی کی شرح پورے یورپ سے بیس گنا اور جاپان سے ۴۰ گنازیادہ ہے۔ (جیمس بارٹرسون اوربیٹرکیم کی کتاب یوم أن اعترفت أمریکا بالحقیقة، صفحہ :۳۵،عربی ترجمہ: محمد بن مسعود البشرصفحہ ۸۸) جنسی بے راہ روی:جو انسان ناحق خون بہانے کو معمولی کام سمجھنے لگے تو پھر بھلا وہ محفوظ عزتوں کو پامال کرنے میں کیا باک محسوس کرے گا اوریہ حقیقت ہے کہ خون کا پیاسا انسان یقینا