کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 104
حیوانیت اپنی دل لگی کا سامان کرتی ہے۔ جرائم کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے! امریکی معاشرہ میں صرف اسی اور نوے کی دہائی میں قیدیوں کی تعداد پہلے سے تین گنا بڑھ گئی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ۱۹۸۰ء تا ۱۹۹۳ء کے دوران جیلوں میں آنے والے قیدیوں کی تعداد نو لاکھ پچاس ہزار( ۹۵۰۰۰۰)تھی اوریہ تعداد بھی ان مجرموں کی تھی جن کی باقاعدہ تھانے میں رپورٹ درج ہوئی۔اگر ہم اس بات سے واقف ہوں کہ وہ جرائم جو منظر عام پر نہیں آئے ، ان کی تعداد منظر عام پر آنے والے جرائم کی نسبت عموماً کئی گنا ہوتی ہے تو آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ امریکی معاشرہ میں حقیقی مجرموں کی تعداد کس قدر زیادہ ہوگی۔ اور جرائم کی وہ تعداد جن کا سرکاری اعدادوشمار میں اعلان کیا گیا، اس میں آخری چند سالوں میں جرائم کی تعداد گذشتہ سالوں کی نسبت کئی گناہ زیادہ ہے۔امریکہ کی کل آبادی اس وقت ۲۶۳۲۵۰۰۰۰ ملین ہے اور وہاں اب جرائم کی شرح ۶۰ فیصد ہوگئی ہے۔ امریکی معاشرے کی مجموعی تعداد میں ۶۰ فیصد ایسے لوگ ہیں جو عادی مجرم ہیں اور بڑے بڑے جرائم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ ۵۸ فیصد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کم از کم دو مرتبہ ان جرائم کا ارتکاب کیا ہے ۔ مذکورہ فیصدی شرح جرائم سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہاں جرائم پیشہ افراد کی کل تعداد کتنی ہوگی۔ ( جیمس بارٹرسون وبیٹرکیم کی کتاب یوم أن اعترفت أمریکا بالحقیقة، صفحہ :۳۵،عربی ترجمہ: محمد بن مسعود البشر) یہ تو تھا ایک اجمالی خاکہ، اب مختلف جرائم کی الگ الگ تفصیل ملاحظہ ہو : قتل و غارت:بعض لوگ اس وہم کا شکار ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں قاتل کے لئے پھانسی کی سزا کو ختم کرنے پر جو مسلسل اصرار کیا جارہا ہے، اس کا سبب جذبہ رحم دلی اور وہ انسانی جذبات اور احساسات ہیں جن کے مطابق پھانسی کی سزا ایک اذیت رساں ،ظالمانہ اور غیر مہذب اقدام ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔اگر ہمیں معلوم ہوکہ صرف امریکہ میں قتل کے واقعات کی شرح کس قدر خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے تو ہمیں یہ بخوبی سمجھ آجائے گا کہ امریکی اور یورپی معاشرہ اور دیگر مغربیوں کا پھانسی کی سزا پر واویلا کرنے کا اصل محرک کیا ہے؟ دراصل اس واویلے کے پس پردہ کا رفرما حقیقی سبب یہ ہے کہ اگر پھانسی کی سزا کو امریکی باشندوں پر نافذ کیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر سال ہزاروں امریکیوں کا خون بہانا پڑے گا۔ اس لئے کہ امریکہ میں ہر سال ۲۵ ہزار افراد قتل ہوتے ہیں ۔اس سزا کے نفاذ کی صورت میں ۲۵ ہزار افراد کو عدالت کے کٹہرے میں قتل کی پاداش میں قتل کیا جائے گا ۔ یہ تو اس صورت میں ہے جب ہم یہ فرض کرلیں کہ ہر