کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 100
ارضی سے ہمیشہ کے لئے مٹا دیا ،تاکہ وہ اس کائناتِ بشری کو انسانی حقوق کا پہلا اور آخری سبق سکھا دیں ۔ یا وسطی ایشیا کے ان مظلوم انسانوں کے حقوق کی بات کرتے ہو جنہیں بحر منجمد شمالی میں جمع کیا گیا اور اشتراکیت اور مارکسزم کے ظالمانہ قوانین کو عملی جامہ پہنانے کیلئے لاکھوں جانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا․
اے انسانی حقوق کے نام نہاد مبلغو! بتاؤ کون سے انسان کے حقوق کی بات کرتے ہو؟کیا مقبوضہ فلسطین وکشمیر کے اس نہتے انسان کی، جس پرآتش وآہن کی بارش کی جارہی ہے یا عراق کے اس بے بس باشندہ کی جسے آئے روز بمباری کرکے خاک و خون میں تڑپایا جارہا ہے اور اقتصادی شب خون سے وہاں کے عوام کی زندگی جہنم بنادی گئی ہے یا افغانستان کے اس مقہور و مجبور انسان کی جس پر اقتصادی پابندیاں لگاکر ان سے زندہ رہنے اور اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے کا حق چھین لیاگیا ہے۔یا بلقان اور چیچنیا کے اس درماندہ اور مقہور انسان کی جسے طیاروں اور ٹینکوں کی مدد سے خون کا غسل دیا جارہا ہے۔
نہیں نہیں ، ہرگز نہیں !بلکہتمہارا طرزِ عمل امتیازی رنگ وروپ رکھتا ہے اور تم صرف اس انسان کے حقوق کے لئے شور مچارہے ہو جو یورپی ہے اور مغربی تہذیب کا ہدی خوان ہے۔
کون سے حقوق!
کاش حقوقِ انسانی کے داعیوں کو انسان کے حق میں یہ فکر دامن گیر ہوتی کہ اس دور کا تباہ حال انسان کس طرح خوشحال ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرنے میں خود مختار اور بااختیار کیونکر ہو سکتا ہے اوردورِ حاضر کے چیلنجوں کے مقابلہ میں کامیابی و فتح یابی سے ہمکنار کیسے ہوسکتا ہے اور وہ پسماندگی اور مفلسی جو اس پر مسلط کردی گئی ہے، اس کی پرپیچ کھائیوں سے نکلنے میں کامیابی کب اس کے حصے میں آئے گی۔ یقینا انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ جانتی ہیں کہ اکثر ترقی پذیر ممالک جو ہر میدان میں پسماندگی کی اندوہناک صورتحال سے دوچار ہیں ، اس کے بنیادی طور پر مندرجہ ذیل اسباب ہیں :
(۱) معاشی اور اقتصادی شب ِخون
(۲) ٹیکنالوجی کا حصار اور
(۳) معاشرتی اور اجتماعی بگاڑ
پھرستم ظریفی یہ کہ استعماری طاقتیں ان قوموں کی معیشت کو ہمیشہ کے لئے برباد کرنے،انہیں سائنسی ٹیکنالوجی کے حصار میں جکڑنے اور ان کی معاشرت اور تہذیب وتمدن کو بگاڑنے کے لئے سیاسی اور قانونی ہتھکنڈوں کو بروئے کارلارہی ہیں اور طاقت کے نشے سے مخمور ہو کر انہیں ا س بات پر مجبور کررہی ہیں کہ وہ اپنے تمام اُمور ہماری مرضی کے مطابق انجام دیں ۔یہی وہ پس پردہ عزائم ہیں جن کے حصول کے لئے انسانی حقوق کے یہ داعی حقوقِ انسانی کا غلغلہ بلند کرتے ہیں ۔