کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 98
آسمان میں ہے جو اپنا پھل اللہ کے حکم سے ہر وقت دیتاہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں “ (ابراہیم:۱۴/۲۴،۲۵)
اور کفر ایک ایسی بنیا دہے جس سے ہر برائی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ يُّشْرِکْ بِاللّٰهِ فَکَأنَّمَا خَرَّمِنَ السَّمآءِ فَتَخْطُفَهُ الطَّيْرُ أوْتَهْوِيْ بِه الرِّيْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِيْقٍ﴾ (الحج: ۲۲/۳۱)
”اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا وہ آسمان سے گر گیا اور اسے پرندے اچک رہے ہیں یا ہوا اسے دور دراز جگہ میں ڈال رہی ہو“
اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے:
﴿وَمَثلُ کَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ کَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِ نِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الاَرْضِ مَالَهَا مِنْ قَرَارٍ﴾ (ابراہیم: ۱۴/۲۶)
”اوربرے کلمے کی مثال خبیث درخت کی ہے جو زمین کے اوپر سے اکھاڑ دیا گیا ہو اور اسے کوئی قرار و ثبات نہ ہو“
انسان کا ایمان جب تک نیک عمل سے وابستہ نہ ہو یہ اس کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ اس پربس نہیں ، بلکہ جوبات دل میں ہو، عمل اس کی تصدیق کرے اور وہ صبر کے ساتھ اس کی دعوت بھی دیتا ہو۔ معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا ضروری ہے کیونکہ یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کا طریقہ ہے:
﴿قُلْ هٰذِه سَبِيْلِیْ أدْعُوْ إلَی اللّٰهِ عَلٰی بَصِيْرَةٍ أنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾
”آپ فرما دیں کہ یہی میرا راستہ ہے کہ میں اور میرے پیروکار بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں “ (یوسف: ۱۲/ ۱۰۸)
اور دعوت الی اللہ اور سچائی کی تلقین کئے بغیر نہ فرد کی کامیابی ہے اور نہ جماعت کی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿کُنْتُمْ خَيْرَ أمَّةٍ أخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوٴمِنُوْنَ بِاللّٰهِ﴾ (آلِ عمران:۳/۱۱۰)
”تم بہترین امت ہو، لوگوں کے لئے پیدا کئے گئے ہو، نیکی کا حکم دیتے ہو اوربرائی سے روکتے اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو“
جب کوئی شخص نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لئے تیار ہوتا ہے تو اس کا ٹکراؤ لازماً ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جو اس کی راہ میں حائل ہوتے اور اسے تکلیف پہنچاتے ہیں ۔ اسی لئے جو لوگ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے ہیں ، ان کے لئے صبر کرنا اور اپنے ساتھیوں کو اس کی تلقین کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
﴿يٰبَنَیَّ أقِمِ الصَّلٰوةَ وَأمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْه عَلَی الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ أصَابَکَ إنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الأمُوْرِ﴾ (لقمان: ۳۱/۱۷)
”اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو اور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو تکلیف پہنچے، اس پر صبر کرو بے شک یہ عزیمت اور حوصلے کی بات ہے“