کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 97
پندرہویں صفت … گھاٹا و خسارہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَالْعَصْرِ إنَّ الاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ، إلاَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَا صَوْا بِالصَّبْرِ﴾(العصر: ۱۰۳/۱۔۳) ”زمانے کے قسم! یقینا انسان گھاٹے میں ہے مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور آپس میں سچائی کی تلقین کی اور صبر کی تلقین کی“ بے شک اس زندگی میں ایک راستے کے سوا کوئی سیدھا راستہ نہیں ہے۔ اس کے سوا گمراہی اور خسارہ ہی خسارہ ہے لہٰذا اس سورة میں انسان کے تمام مفید اَوصاف یکجا کردیئے گئے ہیں ۔ اسی لئے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انسان کے لئے صرف یہی سورة اُتارتاتو کافی ہوتی۔ یقینا انسان کا اصل اور عام گھاٹا، گمراہی اور ہلاکت ہے لیکن جس میں یہ چار اوصاف پائے جائیں وہ اس خسارے سے محفوظ رہتا ہے: (۱) ایمان (۲) نیک اعمال (۳) سچائی کی تلقین(۴) صبر کی تلقین کیونکہ ایمان زبان سے اقرار کرنے، اعضاء سے عمل کرنے اور دل سے عقیدہ رکھنے کا نام ہے۔ ایمان اطاعت سے بڑھتا اور نافرمانی سے کم ہوتا ہے۔ علماءِ اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان کی یہی تعریف ہے۔ اور ایمان وہ اصل ہے جس سے خیر کی تمام شاخیں پھوٹتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: ﴿ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً کَلِمَةً طَيِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِیْ السَّمآءِ تُوٴتِیْ اُکُلَهَا کُلَّ حِيْنٍ بِإذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الأمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَکَّرُوْنَ﴾ [1]” اللہ نے کلمہ طیبہ کی مثال ایک پاکیزہ درخت سے دی ہے، جس کی جڑ ثابت و پائیدار ہے اور شاخ