کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 93
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿کَلاَّ إنَّ الاِنْسَانَ لَيَطْغٰی أنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰی﴾ (العلق: ۹۶/۶۔۷)
”یقینا انسان سرکشی کرتا ہے، اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو غنی سمجھتا ہے“
نیز اس نے فرمایا: ﴿إنَّ الاِنْسَانَ لِرَبِّه لَکَنُوْدٌ﴾ (العادیات: ۱۰۰/۶)
”بیشک انسان اپنے ربّ کا بڑا ناشکرا ہے“ (یعنی وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے)
عام طور پر انسان اپنے ربّ کا شکریہ ادا نہیں کرتا اور نہ اس کی نعمتوں کا اقرار کرتا ہے۔ وہ سرکشی و برائی کرتا اور مالداری کے وقت اِتراتا ہے۔ اپنے رب کی گوناگوں نعمتوں کے باوجود اس سے منہ پھیر لیتا ہے اور دور ہوجاتا ہے۔بے شک انسان کا ایسا کردار یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے مولیٰ کی نعمتوں کی ناشکری اور ان کا انکار کرتا ہے۔ اس طرح وہ خود اپنی اس ناشکری کا شاہد ہے :
﴿وَإنَّه عَلٰی ذٰلِکَ لَشَهِيْدٌ﴾ (العادیات: ۱۰۰/۷) ”بے شک وہ اس پر گواہ ہے“
اور اس کا معاملہ اسی وقت درست ہوتا ہے جب وہ زمین کی زندگیسے آسمان کی زندگی کی طرف اور دنیا کی تنگی سے آخرت کی وسعت کی طرف بلند ہوتا ہے اور دنیا کی حقیر فکروں کو چھوڑ کر اس سے بڑی اور کشادہ چیز کو اہمیت دیتا ہے۔ شاعر نے کہا ٭
علی قدر أهل العزم تأتي العزائم وتأتي علی قدر الکرام المکارم
وتکبر في عين الصغير صغارها وتصغر في عين العظيم العظائم
”اہل ہمت کے لحاظ سے ہمتیں ہوتی ہیں ، اور شرفاء کے لحاظ سے شرافتیں ہوتی ہیں ۔ چھوٹے کی نگاہ میں چھوٹی چیزیں بڑی ہوتی ہیں اور بڑوں کی نگاہ میں بڑی چیزیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں “[1]
چودہویں صفت … غفلت و لاپروائی