کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 92
﴿وَمَنْ أعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإنَّ لَهُ مَعِيْشَةً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُه يَوْمَ الْقِيٰمَةِ أعْمٰی قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِيْرًا قَالَ کَذٰلِکَ أتَتْکَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا وَکَذٰلِکَ الْيَوْمَ تُنْسٰی﴾ (طہٰ :۲۰/۱۲۴۔۱۲۶)
” اور جس نے میرے ذکر سے منہ موڑ لیا اس کے لئے تنگ زندگی ہے اورہم اسے قیامت کے روز اندھا بنا کر اٹھائیں گے، وہ کہے گا کہ ”میرے ربّ! مجھے اندھا کیوں اٹھایا جبکہ میں بینا تھا“ تو اللہ فرمائے گا کہ : ”ایسے ہی تمہارے پاس میری آیتیں آئیں تو تم نے انہیں فراموش کردیا اسی طرح تم آج اس دن فراموش کردیئے جاؤ گے“
لوگ محنت و مشقت کے معاملے میں بھی مختلف سوچ رکھتے ہیں ۔ بعض لوگ علم کی جستجو میں محنت کرتے ہیں اور بعض دنیا سمیٹنے میں محنت کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی ساری کوشش دوسروں کو اللہ کے راستہ سے روکنے کے لئے صرف ہوتی ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔ بعض ایسے ہیں جوجنت کی طلب اور ربّ کی رضا کے لئے محنت کرتے ہیں ۔بعض ایسے ہیں جو نفسانی خواہشات کی تکمیل اور نوع بہ نوع معاصی کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا اے انسان! تو راہِ جنت کواختیار کر نہ کہ دوزخ کو۔ باقی محنت و مشقت، رنج و غم تو اللہ تعالیٰ نے دنیا پرستوں کے لئے، دنیا و آخرت دونوں میں لکھ دیا ہے۔
جبکہ طالبین جنت کو سکون و قرار اور راحت و اطمینان دنیا و آخرت دونوں جگہ ملتا رہے گا کیونکہ جب اسے ثواب و بہترین اجر کا علم ہوا تو اس نے اپنے ربّ کو خوش کرنے کے لئے نوع بہ نوع محنت و مشقت کرنا شروع کردی۔ اس محنت و ریاضت میں بھی اسے وہ سکون اور اطمینان ملتا ہے جو دنیا کی ہر آسائش پالینے والے کے تصور میں بھی نہیں آسکتا۔[1]
تیرہویں صفت … سرکشی و ناشکری