کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 91
نیز اس کا ارشاد ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ﴾ (البلد:۹۰/۴) ”ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا “ انسان اس دنیا میں مشقتیں برداشت کرتے ہوئے اور روزی کی طلب میں کوشش کرتے ہوئے سفر حیات طے کرتا ہے۔ وہ اپنے ربّ تک رسائی کے لئے اپنا رستہ بناتا ہے کیونکہ اسے محنت و کاوش اور تکان کے بعد اسی کی طرف لوٹنا اور اسی کے پاس ٹھکانہ بنانا ہے اس دنیا میں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے انسان اپنے بدن یا ذہن یا دونوں کو تھکا دیتا ہے۔ اگر اسے مال مل گیا تو اس کی تکان اور بڑھ جاتی ہے اور اگر جاہ و منصب مل گیا تو اس کی فکر اور غم اور بڑھ جاتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے ؎ کلما ازداد الفتیٰ علما بها کلما يدخل في عيش أمر ”جیسے جیسے کسی نوجوان کو اس کا زیادہ علم ہوتا ہے، زیادہ کڑوی زندگی میں داخل ہوجاتا ہے“ یہ مشقت و تکان کی زندگی ہے جس میں آرام و سکون نہیں ، یہ مشقت و تکلیف اور حسرت و آزردگی کی زندگی ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے ؎ وما السعادة في الدنيا سویٰ أمل يرجی، فإن صار حقا مله البشر ”دنیا کی سعادت آس و امید کے سوا کچھ نہیں اور اگر پوری ہوجائے تو خوشی اسے آزردہ کردیتی ہے“ لہٰذا انسان طلب ِدنیا میں جو مشقت اٹھاتا ہے اگر وہ اپنے ربّ کی عبادت میں اُٹھاتا رہے تو اللہ اس کے بدلے میں اسے قلبی سعادت اور آخرت کا اجر دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ دنیا کی [1]مشقت اٹھائے تو اس کی فکر اور غم و بدبختی اور بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :