کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 85
انسان کا دل جب ایمان سے خالی ہوتا ہے تو اس کی مثال ہوا کے سامنے ایک پر کی مانند ہوتی ہے۔وہ معمولی تکلیف یا نقصان سے بے تاب ہوجاتا ہے اورتھوڑی سی بات پر خوش ہونے لگتا ہے۔ وہ اُداس و بے صبرا بن کر خوف، ڈر اور خوشی و کنجوسی کے درمیان ہچکولے کھانے لگتا ہے لیکن جب اس کا دل ایمان سے آباد ہوتا ہے تو اس کا نفس مطمئن رہتا ہے اور اسے سکونِ قلب نصیب ہوتا ہے۔ وہ پریشانی کے وقت سنگدل اور مصیبت کے وقت اُداس نہیں ہوتا بلکہ اس پر صبر کرتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ تنگی کے بعد آسانی اور مشکل کے بعد کشائش ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کی مصیبت کا، یہاں تک کہ کانٹا بھی چبھ جائے تو اس کا بدلہ دے گا۔ اوریہ کہ جو کچھ بھی نعمت ملے وہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش و امتحان ہے۔ اس لئے اس کا دل دنیا کی نعمتیں ملنے پر خوشی سے اُڑنے نہیں لگتا۔ بلکہ وہ اس کا حساب کرتا ہے اور اللہ کی آزمائش اور ناشکری سے ڈرتا ہے لہٰذا اس کا دل ثابت، طبیعت مطمئن اور پرسکون اور اس کی حالت برقرار رہتی ہے۔
ایمان دنیا و آخرت کی ایک پائیدار سعادت ہے اورفسق و فجور دنیاو آخرت کی پائیدار شقاوت ہے۔ اسی طرح نماز حقیر بندے اور اس کے طاقتور و زبردست ربّ کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جو اسے سکون و اطمینان اور طاقت و ثبات دیتی ہے۔ صرف ایسی نماز جو پابندی سے بلاناغہ ادا کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب عمل وہی ہے جو مسلسل ہو اگرچہ کم ہو۔ زکوٰة و صدقہ موٴمن کے مال میں ایک واجب حصہ ہوتا ہے جسے ادا کئے بغیر اسے قرار نہیں ہوتا اوراسے ادا کرتے وقت وہ اسے سعادت اور اپنے مال کی آلودگیوں سے صفائی سمجھتا ہے ۔ اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ وہ فقیروں اور غریبوں کی مدد اور تعاون کررہا ہے۔ اسے جب بھی موقع ملے، خیرات کرتا رہتا ہے۔ اوریومِ جزا اورحساب پر ایمان اس کے نفس کو سکون و قرار دیتا ہے اور وہ خوش ہوتا ہے کہ ادھر ایک ایسا دن ہے جس میں ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کا کوئی عمل ضائع نہیں جائے گا لیکن جو شخص آخرت اور حساب کو نہیں مانتا جب اس سے کوئی چیز چھوٹ جاتی ہے یا برباد ہوجاتی ہے یا کوئی اس پر زیادتی کردیتا ہے تو اس کا دل حیرت اورپریشانی سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگتا ہے کیونکہ وہ اپنی محدود اور مختصر عمر کے بارے میں ہی سوچتا ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا اور آخرت کی جزا کا امیدوار ہوتا ہے وہ حساسیت کے بلند مرتبے پر ہوتا ہے اور دنیا میں دونوں آنکھیں ، دل اور حواس کھول کر چلتا ہے۔ وہ کوئی غلط بات منہ سے بولنے اور کوئی غلط کام کرنے یا کوئی نگاہ غلط اُٹھانے سے ڈرتا ہے۔وہ اللہ کی ہدایت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلتا ہے اور وہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ اپنی بیوی اورکنیز کو چھوڑ کر زنا کاری نہیں کرتا اور نہ دوسری عورتوں کی طرف نگاہ ڈالتا ہے۔ بے شک وہی پاک اور صاف ستھرا ہے جواپنی صفائی کو نافرمانیوں اور گناہ کا دھبہ نہیں لگاتا اور محرمات کو نہیں توڑتا۔ وہی مطمئن ہوتا ہے جس کے اعصاب پرسکون اور جس کی طبیعت خوش رہتی ہے، اس لئے کہ طبیعت کا سکون ہی راحت بخش زندگی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: