کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 84
إلاَّ الْمُصَلِّيْنَ﴾ (المعارج: ۷۰/۱۹تا۲۲)
”بے شک انسان بے صبرا پیدا کیا گیا ہے اورجب اسے نقصان پہنچتا ہے تو بے قرار ہوجاتا ہے اور جب دولت ملتی ہے تو کنجوس ہوجاتا ہے مگر جو نمازی ہیں “
جب انسان خیرحاصل کرتا ہے تو متقی اور پرہیزگار بن جاتاہے ۔ شر حاصل کرتا ہے تو بداعمالیوں کا شکار ہوجاتاہے۔ اس طرح ا س کے موٴمن ہونے اور موٴمن نہ ہونے کی صورت میں اس کی یہی خوبی حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔جب اس کا دل ایسے ایمان سے خالی ہوتا ہے جو اس کے دل کو مطمئن کرے اور اس کا رشتہ اس کے ربّ سے جوڑے تو وہ اپنی اصل فطرت بے صبری و بے قراری میں گرفتار رہتا ہے۔ اور پھر جب بے تاب ہوجاتاہے تو سوچتا ہے کہ یہ مصیبت ا س سے دور نہیں ہوگی اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گی۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے کشائش پیدا کرے گا اور اس مشکل کو آسان بنا ئے گا۔وہ بے صبرا ہو کر کف ِافسوس ملتا ہے۔
جب خیر اور مال وجاہ یا علم حاصل کرتا ہے تو کنجوس بن جاتا ہے اور اسے دوسروں تک نہیں پہنچاتا وہ اپنے نفس اور مال کا بندہ بن جاتا ہے اور اس کی ہوس اور کنجوسی بڑھ جاتی ہے۔ اس کا معاملہ صرف ایمان اور پابندی ٴ نماز ہی سے درست ہوسکتا ہے۔ اسی لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿إلَّا الْمُصَلِّيْنَ، الَّذِيْنَ هُمْ عَلٰی صَلاَتِهِمْ دَآئِمُوْنَ، وَالَّذِيْنَ فِیْ أمْوَالِهِمْ حَقٌ مَّعْلُوْمٌ، لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ، وَالَّذِيْنَ يُصَدِّقُوْنَ بِيَوْمِ الدِّينِ، وَالَّذِيْنَ هُمْ مِنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُوْنَ، إنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَامُوْنٍ، وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ، إلاَّ عَلٰی أزْوَاجِهِمْ أوْمَا مَلَکَتْ أيْمٰنُهُمْ فَإنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ، فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ هُمُ الْعَادُوْنَ، وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُوْنَ، وَالَّذِيْنَ هُمْ بِشَهٰدٰتِهِمْ قَآئِمُوْنَ، وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰی صَلاَتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ﴾ (المعارج: ۷۰/۲۲ تا۳۴)
”جو سدا نماز پڑھتے ہیں ، جن کے مالوں میں سائل (فقیر) اوربے نصیب کا مقررہ حصہ ہے، جو بدلے کے دن کا یقین رکھتے ہیں اور جو اپنے ربّ کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں ، بے شک تمہارے ربّ کا عذاب بے خوف رہنے کا نہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں اورکنیزوں پر، ان پر کچھ الزام نہیں اورجو ان (بیویوں اور کنیزوں ) کے سوا (جنسی ذرائع) چاہتے ہیں ، وہی حد سے تجاوز کرتے ہیں اور جو اپنی امانتوں اور وعدوں کا خیال رکھتے ہیں اور جو اپنی گواہیوں پر ثابت رہتے ہیں اور جو اپنی نما زکی خبرداری رکھتے ہیں “[1]