کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 83
﴿وَإذْ أخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَتَهُمْ وَأشْهَدَهُمْ عَلٰی أنْفُسِهِمْ ألَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَهِدْنَا أنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ إنَّا کُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ﴾
(الاعراف: ۷ /۱۷۲)
”اور اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے ربّ نے بنوآدم (انسانوں ) کی پشت سے ان کی ذرّیت کو لیا اور انہیں ان کے اوپر شاہد بنایا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں ؟ سب نے کہا: کیوں نہیں ! ہم شاہد ہیں (یہ عہد اس لئے لیا) کہ قیامت کے روز یہ نہ کہو کہ ہم ان سے غافل رہ گئے“
اور اس نے فرمایا:
﴿وَإذْ أخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ أوْتُوْا الْکِتَابَ لَتُبَيِّنَنَّه لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُوْنَه فَنَبَذُوْه وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِه ثَمَنًا قَلِيْلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُوْنَ﴾
(آلِ عمران: ۳/۱۷۸)
”اور اس وقت کو یاد کرو جب اللہ نے ان سے اقرار لیا جو کتاب دیئے گئے کہ تم ضرور لوگوں کے لئے اسے بیان کرو گے اور چھپاؤ گے نہیں تو انہوں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور اس کے عوض تھوڑی قیمت خرید لی تو وہ کیا ہی بری چیز خرید رہے ہیں !“
قارون نے کہا کہ مجھے ’مال‘ اپنے علم کی بدولت دیا گیا اور اس زمانے میں بہت سے لوگ جو مال یا جاہ و جلال یا علم وغیرہ کے فریب میں ہیں ، وہ اس نعمت کے سرچشمے کو جس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ، فراموش کر بیٹھے ہیں ۔
انسان کی بھول اس وقت نمایاں طور پر ظاہر ہوجاتی ہے جب سختی اور ابتلاء کی منزل کو عبور کرکے عیش و آسائش حاصل کرلیتا ہے۔ اگر اسے یہ علم ہوجائے کہ یہ آرام و راحت، یہ مال و جاہ اور یہ منصب وعلم ایک آزمائش اور امتحان ہے تو وہ اپنے ربّ کو نہیں بھولے گا اور اس کے ایمان اور جذبہ شکر میں اضافہ ہوجائے گا لیکن اس بھول اور نسیان کو تو انہوں نے اپنے باپ دادا سے وراثت میں پایا ہے، جن سے اس کے پروردگار نے عہد لیا تو بھول گئے۔ یہ ان کی اولاد کی طبیعت اور فطرت بن چکی ہے مگر اللہ تعالیٰ جس کی حفاظت فرما دے۔[1]
نویں صفت … بے صبری و بے قراری
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إنَّ الاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا، إذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا، وَإذَا مَسَّه الْخَيْرُ مَنُوْعًا،