کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 82
امانت میں خیانت کی ہے جس کا بار خود اپنے اوپر اپنی پسند سے ڈال لیا۔ یہ زبردست ذمہ داری اور اہم امانت کواٹھاناانسان کی بڑی نادانی اور اندھا پن تھا، اسی لئے وہ بڑا ظلم اور نادان قرار دیا گیا ہے۔ آٹھویں صفت … بھول اور نسیان اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَإذَا مَسَّ الاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّه مَنِيِبْاً إلَيِهِ ثُمَّ إذَا خَوَّلَه نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِیَ مَا کَانَ يَدْعُوْا إلَيْه مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلّٰهِ أنْدَادًا لِّيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ قُلْ تَمَتَّعْ بِکُفْرِکَ قَلِيْلًا إنَّکَ مِنْ أصْحٰبِ النَّارِ﴾ (الزمر : ۳۹/۸) ”جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے ربّ کو دھیان دے کر پکارتا ہے اور جب وہ اسے اپنی کسی نعمت سے نواز دیتا ہے تو جس (تکلیف) کے لئے پہلے پکارتا تھا اس (کے اِزالے) کو فراموش کردیتا ہے اور اللہ کا شریک بنانے لگتا ہے تاکہ اس کے راستے سے گمراہ کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیں کہ اپنے کفر کا تھوڑا سا فائدہ اُٹھالو، بے شک تم جہنم والوں میں سے ہو“ نیز اس کا ارشاد ہے: ﴿فَإذَا مَسَّ الاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إذَا خَوَّلْنٰه نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إنَّمآ أوْتِيْتُه عَلٰی عِلْمٍ بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَلٰکِنَّ أکْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُوْنَ﴾ (الزمر:۳۹/۴۹) ”جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی کوئی نعمت دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ میں نے اسے علم کی بدولت حاصل کیا ہے بلکہ یہ ایک آزمائش ہے لیکن ان میں زیادہ تر اسے نہیں جانتے“ اس کا یہ بھی ارشاد ہے: ﴿وَلَقَدْ عَهِدْنَا إلٰی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَه عَزْمًا﴾ (طہٰ: ۲۰/۱۱۵) ”اور اس سے پہلے ہم نے آدم سے اقرار لیا تو وہ بھول گیا اورہم نے اس میں عزم نہیں پایا“ بے شک بھول اور نسیان انسان کی فطرت و سرشت میں داخل ہے۔ اور اگرچہ یہ اس لحاظ سے انسان کے لئے ایک نعمت ہے کہ اس کیفکرو مصائب کو فراموش کرا دیتی ہے اور ان کی یاد آنے نہیں دیتی۔ لیکن اگر وہ اسی اِقرار کو فراموش کردے اور اس وعدے کو وفا نہ کرے جس کا اس سے وعدہ لیا گیا ہے تو اس کے لئے ایک عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے اپنی عبادت کرنے اور شرک نہ کرنے کا اقرار لیا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے اس کو بیان کرنے اور لوگوں سے نہ چھپانے کا عہد و پیمان لیا تھا۔ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تونیک اَعمال کا پابند بن جاتا ہے اوراپنے ربّ کو مشکل وقت میں یاد کرتا ہے اور جب اللہ اسے کسی نعمت سے نوازتا ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجاتاہے، اپنی دعا و پکار کو فراموش کردیتا ہے اور اپنے نفس اور خواہش کا بندہ بن جاتا ہے۔ مشکل میں اپنے ربّ کوپکارنا اور رونا انسان کی ایسی فطرت ہے جو صرف مشکل کے وقت ظاہر ہوتی ہے اسلئے پائیدار نہیں ہوتی۔ اللہ کا ارشاد ہے: