کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 77
﴿قُتِلَ الاِنْسَانُ مآاَکْفَرَہ﴾ (عبس: ۸۰/۱۷) ”انسان ہلاک ہو وہ کتنا ناشکرا ہے“
لہٰذا کفر اور ظلم انسان کی پائیدار صفت ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کی توفیق نہیں دیتا وہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری اور وہ اس وقت تک اپنے اور دوسروں پر ظلم کرتا رہتا ہے جب تک اپنے نفس کو اسلام کے اَحکامات اور محاسن پر درست نہ کرلے۔
انسان جب خود کو مالدار اور طاقتور دیکھتا ہے تو دوسروں پر ظلم و زیادتی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم کرنا اس کی پائیدار صفت بتائی گئی ہے اور اسی لئے نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکی جاتی ہے:
اَللّٰهُمَّ إنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ ظُلْمًا کَثِيْرًا، وَلاَيَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إلاَّ أنْتَ فَاغْفِرْ لِيْ مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ إنَّکَ أنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (حوالہ)
”اے اللہ! میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا اور گناہوں کو آپ ہی بخشتے ہیں ، آپ اپنی طرف سے مجھے بخش دیں اور مجھ پر رحم کریں آپ غفور رحیم ہیں “
اور زیادہ تر لوگ اپنے ربّ کے نافرمان اور اس کے دین سے بیزار ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإنْ تُطِعْ أکْثَرَ مَنْ فِیْ الاَرْضِ يُضِلُّوکَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ إنْ يَّتَّبِعُوْنَ إلاَّ الظَّنَّ وَإنْ هُمْ إلاَّ يَخْرُصُوْنَ﴾ (الانعام: ۶/۱۱۶)
”اور اگر آپ روئے زمین کے زیادہ تر لوگوں کے پیچھے چلیں گے تو وہ آپ کو اللہ کے راستے سے دور کردیں گے، وہ تو اندازے ہی کے پیچھے چلتے اور قیاس آرائی کرتے ہیں “
فرمانِ الٰہی ہے: ﴿وَمَآ أکْثَرُ النَّاسَ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُوْمِنِيْنَ﴾ (یوسف: ۱۲/۱۰۳)
”اور زیادہ تر لوگ آپ چاہیں تو بھی موٴمن نہیں ہوں گے“[1]