کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 76
”اور جب اسے پریشانی ہو تو مایوس ہوجاتا ہے“ … اور فرمایا:
﴿وَإذَا أذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوْا بِهَا وَإنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أيْدِيْهِمْ إذَاهُمْ يَقْنَطُوْنَ﴾ (الروم:۳۰/۳۶)
”اور ہم انسان کو اپنی کوئی رحمت چکھاتے ہیں تو اس کی وجہ سے اِترانے لگتا ہے اور اگر اپنے کرتوت کی وجہ سے اسے ذرا سی تکلیف پہنچتی ہے تو یکایک نااُمید ہوجاتا ہے“
اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے: ﴿وَإذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُنِيْبِيْنَ إلَيْهِ ثُمَّ إذَآ أذَاقَهُمْ مِنْه رَحْمَةً إذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِکُوْنَ﴾ (الروم :۳۰/۳۳)
”اور جب انسانوں کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اللہ کی طرف توجہ دے کر پکارتے ہیں اورجب وہ انہیں کوئی رحمت چکھا دیتا ہے تو یکایک ان کا ایک گروہ اپنے ربّ کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے“
اکثر اوقات انسان پل بھر میں نااُمید ہوجاتا ہے اور محض نعمت کے چھن جانے سے اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتا ہے اور آسائش کی حالت میں اِتراتا ہے۔ کسی مشکل کو برداشت نہیں کر پاتا۔ نہ کسی تکلیف پر صبر کرتا ہے اور نہ اس کے دور ہونے کی اُمید رکھتا ہے۔ جب اللہ اسے نعمت دیتا ہے تو اس کے زوال کے بارے میں نہیں سوچتا اور مغرور بن کر اکڑتا ہے۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں جنہوں نے اپنے نفس کی تربیت صبر اور نیک اَعمال پر کی ہے اور مشکلات کو برداشت کیا اور اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
انسان کی عام صفت جیسا کہ بیان کیا گیا ہے: تکلیف پر ناامید، نعمتوں کی ناشکری اور راحت اور آرام ملنے پر خوش ہونا، تکبرکرنا، شرارت و اِسراف اور ہر چیز میں حدود سے تجاوز کرنا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اپنے نفس کی تربیت ایسے کریں کہ نہ بہت خوش ہوں نہ بے حد نااُمید۔اللہ کا فرمان ہے:
﴿مَآ أصَابَ مِنْ مُصِيْبَةٍ فِیْ الاَرْضِ وَلاَ فِیْ أنْفُسِکُمْ إلاَّ فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ أنْ نَبْرَاَهَا ، إنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰهِ يَسِيْرٌ، لِکَيْلاَ تَأسَوا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰکُمْ وَاللّٰهُ لاَ يُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ﴾ (الحدید:۵۷ / ۲۲،۲۳)
”جو بھی مصیبت زمین یا تمہارے اوپر سے آتی ہے وہ زمین کے پیدا ہونے سے پہلے ایک کتاب میں محفوظ ہے بے شک یہ اللہ پر آسان ہے تاکہ تم سے جو چیز چھن جائے اس پر افسوس نہ کرو اور جو (چیز) تمہیں دے اس پر اتراؤ نہیں اور اللہ خود پسند مغرور کو قطعا ً پسند نہیں فرماتے“
تیسری صفت … ظلم و ناشکری
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إنَّ الاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ﴾ (ابراہیم: ۱۴/۳۴) ”بے شک انسان بڑا ظالم ناشکرا ہے“
اور فرمایا:
﴿إنَّ الاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ﴾ (الزحرف: ۴۳/۱۵) ”بے شک انسان کھلم کھلا ناشکرا ہے“
اور اس کا ارشاد ہے: