کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 75
دوسری صفت … ناامید، خوشی، فخر اور اِسراف اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ﴿وَلَئِنْ أذَقْنَا الاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْه إنَّه لَيَئُوسٌ کَفُوْرٌ، وَلَئِنْ اَذَقْنٰه نَعَْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْه لَيَقُوْلَنَّ ذَهَبّ السِّيِّاٰتُ عَنِّيْ إنَّه لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ﴾ (ہود:۱۱/۹،۱۰) ”جب ہم انسان کو اپنی کوئی رحمت چکھاتے ہیں پھر اس سے چھین لیتے ہیں تو وہ نااُمید، ناشکرا ہوجاتاہے اور جب ہم اسے پریشانی کے بعد نعمت چکھاتے ہیں تو وہ ضرور کہتا ہے کہ میری پریشانیوں دور ہوگئیں اور اِترانے اور فخر کرنے لگتا ہے“ … اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَإذَا مَسَّ الاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِهِ أوْقَاعِدًا أوْقَائِمًا فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْه ضُرَّہ مَرَّ کَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَا إلٰی ضُرٍّ مَّسَّه کَذٰلِکَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا کَانُوا يَعْمَلُوْنَ﴾ (یونس:۱۰/۱۲) ”اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹے، بیٹھے اور کھڑے (ہر حالت میں ) ہم کو پکارتا ہے اور جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو ایسے گزر جاتا ہے جیسے ہمیں کسی تکلیف میں پکارا ہی نہ ہو، ایسے ہی اِسراف پسندوں کے عمل ان کے لئے خوشنما بنا دیئے جاتے ہیں “ … اور اِرشاد ہے: ﴿وَإذَا مَسَّهُ الشَّرُ کَانَ يَوٴُسًا﴾ (الإسرا: ۱۷/۸۳)[1]