کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 71
طرزِعمل سے عوام بھی آگاہ ہوچکے ہیں کہ سیاسی لوگوں کو ہم نوا بنانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جاتا۔ یہ بات بالکل بجا ہے کہ قومی او ربین الاقوامی میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے تاکہ دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی ہو۔ اس سلسلے میں قرنِ اوّل سے شواہدملتے ہیں کہ ملک وملت کے لئے کارہائے نمایاں سرانجام دینے والوں کی قدرشناسی کی گئی، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غیر مستحق لوگوں اور سرکاری افسران کے چہیتوں کو بھاری انعامات و وظائف سے نوازا جائے اورہزاروں حق دار اور اہل لوگوں کی کسی کو خبر بھی نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ یہ انعامات ملکی خزانے پر ناروا بوجھ نہ بن جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ انعامات ملک میں غیر عادلانہ تقسیم دولت کی شکل اختیار نہ کرلیں ۔ جن لوگوں پر ملکی خزانہ خرچ کیا جائے، ان کی خدمات ملکی نظریے کے ساتھ مطابقت بھی رکھتی ہوں ۔ ایسا نہ ہو کہ جن شعبوں کو اللہ اور اس کا رسول حرام قرار دیں ، جن کے انسداد کے احکام دیئے گئے ہوں ہم ان شعبوں میں ’خدمات‘ سرانجام دینے والوں کو انعامات سے نوازیں ۔ اس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل لاہور ہائی کورٹ میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ وزیراعظم پاکستان یا صدرِ مملکت یا کسی اعلیٰ عہدیدار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خصوصی اختیارات کو کام میں لاتے ہوئے کسی کو پلاٹ یا خصوصی انعامات سے نواز سکے یا نہیں ؟ عدالت نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ کسی بڑے سے بڑے عہدیدار کو اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ بیت المال میں تصرف کرے اور اپنی پسند کے لوگوں کو انعامات سے نوازے۔ جن لوگوں کو حکومت نے اونے پونے داموں پلاٹ فروخت کئے تھے، انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ان پلاٹوں کی حقیقی قیمت ادا کریں ۔ عدالت نے سابق وزراے اعظم اور وزیراعلیٰ کو حکم دیا کہ وہ بیت المال سے رقوم نکلوانے اور سستے داموں پلاٹ فروخت کرنے کے مسئلے کی عدالت میں وضاحت کریں ۔ عدالت نے قرار دیا کہ پاکستان بیت المال ایکٹ ۱۹۹۱ء کے تحت بیت المال سے تصرف کے حوالے سے وزیراعظم کے پاس کوئی اختیارات نہیں او رپاکستان بیت المال مینجمنٹ بورڈ اس کے فنڈز کو ایکٹ کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے۔ پنجاب ہائی کورٹ کے فاضل جج نے قرار دیا کہ وزارتِ خزانہ بیت المال سے کوئی بھی رقم وزیراعظم سیکرٹریٹ کو منتقل نہیں کرسکتی۔ عدالت نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ مستحق افراد کی شناخت کے لئے کوئی مناسب منصفانہ اور منظم طریقہ موجود نہیں ہے او رنہ ہی فی کس امداد کے لئے کوئی ضابطہ موجود ہے۔ عدالت کے خیال کے مطابق کسی فردِ واحد کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنی مرضی سے بیت المال میں تصرف کرے۔ بدعنوانی کے انسداد کے لئے عدالت نے کہا کہ کسی بھی فرد کے پاس کوئی صوابدیدی مالیاتی اختیارات نہیں ہونے چاہئیں ۔[1]