کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 66
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عریف کو تنبیہ اسی طرح کا ایک منصب جس سے ناجائز طور پر فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور جو لوگوں پر ظلم و زیادتی کا باعث بن جاتا ہے ’عریف‘ کہلاتا ہے۔ عریف ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو حاکم کی طرف سے رعایا کے حالات معلوم کرنے کے لئے مقرر ہوتا ہے۔ اور ضرورت کے وقت اپنی قوم کے مختلف افراد کا رویہ اور کردار رپورٹ کی صورت میں حاکم کے سامنے پیش کرتا ہے۔ زیادہ گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے رشوت وصول کریں گے اور رشوت لے کر لوگوں کی غلط سلط رپورٹیں حکمران تک پہنچائیں ۔ ا س لئے اس طبقے کے بارے میں بھی آپ نے بڑا تنبیہی انداز اختیار فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں ارشاد فرمایا : أفلحت يا قُدَيْمُ إن مُتّ ولم تکن أميرًا ولا کاتبًا ولا عريفًا[1] ”اے مقدام! تو نے نجات پائی، اگر تو اس حال میں فوت ہوا کہ تو نہ لوگوں کا امیر ہوا ،نہ منشی اور نہ عریف ۔“ ایک اور روایت جو ابوداود میں ہے کہ کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ” اسے اس کے باپ کے بعد جو کہ اب بوڑھا ہوچکا ہے، ایک چشمے کا عریف بنا دیا جائے ۔‘‘ آپ نے فرمایا: إن العرافة حق ولا بد للناس من العرفاء ولکن العرفاء فی النار[2] ”عرافت بے شک ایک ضروری منصب ہے، اس کے بغیر گزارا نہیں مگر اکثرعریف جہنم میں جائیں گے“ مسند بزاز میں اس سلسلے میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن فی النار حجرا يقال له ويل ليصعد عليه العرفاء وينزلون[3] ”جہنم میں ایک پتھر ہے جسے ’ویل‘ کہا جاتا ہے۔ عرفاء کو اس پر چڑھایا جائے گا اور پھر نیچے پھینکاجائے گا۔“ مسند ابویعلی میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے کے پاس سے گزرے۔ آپ نے فرمایا: اس جنازے والے کے لئے خوشخبری ہے بشرطیکہ یہ ’عریف‘ نہ ہو۔[4] رشوت اور اس کے بارے میں وعید مالی بدعنوانیوں کی ایک شکل رشوت بھی ہے۔ رشوت کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ جس کام کامعاوضہ لینا شرعاً درست نہ ہو، اس کا معاوضہ وصول کیا جائے۔ مثلاًایک کام کسی شخص کے فرائض میں داخل ہو اور اسے اس کام کی انجام دہی پر سرکاری طور پر معاوضہ اور تنخواہ ملتی ہو، ایسا کام کرنے پر وہ صاحب ِضرورت شخص سے کوئی معاوضہ وصول کرے۔[5] قرآن مجید نے رشوت کے لئے سُحت کا لفظ استعمال کیا ہے۔لفظ
[1] (۱۳) مرغوباتِ نفس مادّی اشیاء سے انسان کا تعلق ان سے فائدے اور تقویت کے حصول کے لئے تو ہوتا ہے لیکن ان اشیاء کی ظاہری چکا چوند، قوت و شوکت کے مظاہر اور حسن و لطافت کے دلکش مناظر سے بھی انسان کا نفس حظ اُٹھاتا ہے۔﴿زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوَاتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ﴾ (آلِ عمران ۳:۱۴) ’’لوگوں کے لئے مرغوباتِ نفس: عورتیں ، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور کھیتیاں بڑی خوشنما بنا دی گئی ہیں ‘‘ اللہ نے مرغوباتِ نفس کو شہوت کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ امام راغب رحمۃ اللہ علیہ اصفہانی کے بقول ’شہوت ‘ نفس کے ان چیزوں کی طرف کھنچنے کو کہتے ہیں جنہیں وہ چاہتا ہے (المفردات)۔کبھی اس چیز کو شہوت کہہ دیا جاتاہے جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو او رکبھی خود اس جذبہ (میلان) کو شہوت کہتے ہیں ۔ (تاج) عورت کا ذکر سب سے پہلے اسی لئے کیا گیا ہے کہ زینت و خوبصورتی کے اعتبار سے نفس انسانی کو سب سے زیادہ اسی میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ تاریخ انسانی اور علم نفسیات اس پرگواہ ہیں کہ خواہش انسانی کا یہ طاقتور داعیہ بڑے بڑے معرکے بپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عورتوں کے بعد بیٹوں کا ذکر کیا ہے۔ عورت کے بعد اَولاد ہی انسان کی آرزؤوں اور توجیہات کا مرکز ہوتی ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ انسان کو اَزدواجی حیثیت میں عورت کی نزاکت و لطافت اور حسن آرائی میں رغبت ہوتی ہے تو اولاد میں اسے جوانمردی، تنومندی کا عنصر محبوب ہے جس کا مظہر بیٹا ہوتا ہے، بیٹیاں نہیں ۔ اس لئے اس آیت میں بھی اور ایک دوسرے مقام پر بھی بیٹوں کو دنیا کی زندگی کی زینت قرار دیا ہے: ﴿اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا﴾ (الکہف ۱۸:۴۶) سونا چاندی پہلے اَدوار میں خوش ذوقی اور شانِ امارت کے اظہار کا ذریعہ بھی تھا اور سکے کی صورت میں تبادلہ اشیاء کا آلہ بھی۔ آج بھی یہ اشیاء اسی طرح مرغوب ہیں صرف سکوں کی حیثیت اب کاغذی نوٹوں میں تبدیل ہوگئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے پیسوں کی جھنکار اور اشرفیوں کی کھنک انسان کو مرغوب تھی اور اَب نوٹوں کی گنتی کی وقت ہاتھوں کے لمس میں انسان ’سرور‘ محسوس کرتا ہے۔ اسی لئے انسان بار بار پیسوں کو گنتا ہے گویا :﴿اَلَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَّعَدَّدَہٗ ، یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗ اَخْلَدَہٗ﴾ (الہمزۃ ۱۰۴:۲،۳) ’’اس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا۔ وہ سمجھتا ہے کہ ا س کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا‘‘