کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 65
ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”لا يدخل الجنة صاحب مکس“[1] (صاحب ِمکس جنت میں داخل نہیں ہوگا)
آپ نے فرمایا: ”إن صاحب المکس فی النار “[2] (صاحب ِمکس آگ میں ڈالا جائے گا)
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت داود علیہ السلام اپنے اہل و عیال کے ساتھ رات کے ایک حصے میں جاگتے اور عبادت کیا کرتے تھے… کیونکہ رات میں ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جس میں جو دعا بھی کی جائے، [3]قبول ہوتی ہے۔ سوائے جادوکرنے والے او رٹیکس وصول کرنے والے کے۔ “
اس موضوع کی دیگر بھی کئی روایات موجود ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدھی رات کو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اورایک پکارنے والا (فرشتہ) پکارتا ہے کہ ہے کوئی سائل کہ اس کی دعا کے مطابق اسے عطا کیا جائے۔ ہے کوئی تکلیف میں مبتلا کہ اس کو تکلیف سے نجات دی جائے۔ اس طرح کوئی ایسا مسلمان نہیں بچتا کہ اس کی دعا کو قبولیت حاصل نہ ہو۔ سوائے زانیہ عورت یا زیادتی سے محاصل وصول کرنے والے شخص کے کہ ان کی دعا قبول نہیں کی جاتی۔[4]
اس موضوع کی ایک روایت یوں ہے کہ آدھی رات کو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے (مزید) قریب ہوجاتا ہے، ان کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں ۔ ان کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، سوائے زانیہ اور زیادتی سے ٹیکس وصول کرنے والے کے۔[5]
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تمہارے اوپر ایسے حکمران اور عمال مقرر ہوں گے کہ ان کے اردگرد شریر لوگ جمع ہوجائیں گے۔ یہ لوگ نمازوں کو موٴخر کردیں گے۔ تم میں سے جوکوئی ان کے زمانے میں موجود ہو تو نہ ان کا عریف (لوگوں کے حالات حکومت تک پہنچانے والا) بنے، نہ ان کا صاحب الشرطہ (پولیس مین) بنے اور نہ ان کے محاصل وصول کرنے والے محصلین بنیں ، نہ ان کے خازن۔‘‘[6]
ان احادیث میں جن لوگوں کو وعید سنائی گئی ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو زکوٰة، عشر یا کوئی او رٹیکس وصول کرتے وقت لوگوں کو ناجائز طور پر چھوٹ دینے کے لئے ان سے رشوت وصول کرتے ہیں اور جو لوگ رشوت نہیں دیتے ،ان سے اصل سے زائد ٹیکس وصول کرتے ہیں یا کسی او رطریقے سے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰة وصول کرنے والوں کو بھی تلقین فرمائی ہے کہ وہ لوگوں سے ان کے بہترین مال وصول نہ کریں ۔ لیکن یہ لوگ آپ کی اس تلقین کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ازراہِ ظلم ان کے بہترین مال وصول کرنے لگیں ۔
[1] (۱۲) خوگر ِپیکر محسوس
اللہ تعالیٰ نے انسان میں اپنی روح پھونکی ﴿نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ﴾(الحجر۱۵:۲۹) اس کی روحانی زندگی کی نشوونما کے لئے انبیاء کرام بھیجے لیکن انسان اپنی حسی تسکین کے لیے بالعموم روحانی اَعمال کو بھی مادّی جامے میں دیکھنے کا خواہشمند رہا۔ یہی و جہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے بت شکن کو بھی بت کے سانچہ میں ڈھال کر خانۂ کعبہ میں کھڑا کردیا گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہی کبھی بنی اسرائیل بچھڑے کی پرستش کرنے لگے۔ تو کبھی انہوں نے اَن دیکھے خدا کو پیکر ِمحسوس کی صورت میں دیکھنے کی خواہش کا ان الفاظ میں اظہار کیا :﴿لَنْ نُّوْمِنْ لَکَ حَتّٰی نَرَیٰ اللّٰہَ جَھْرَۃً﴾ (البقرہ ۲:۵۵) ’’اے موسیٰ! ہم تیری بات پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک اللہ کو کھلم کھلا نہ دیکھ لیں ‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ﴿لَنْ تَرَانِیْ﴾ کا جواب بھی انسان کی اسی خواہش کا عکاس ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی موحد و متوکل شخصیت بھی ﴿ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی﴾ ’’اے میرے ربّ مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے‘‘ کا سوال کرتی نظر آتی ہے۔ اللہ کے سوال ﴿اَوَلَمْ تُوْمِنْ﴾’’کیا تو ایمان نہیں رکھتا‘‘کے جواب میں ان کا ﴿وَلٰکِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ﴾ (البقرہ، ۲:۲۶۰) ’’لیکن میں دل کا پورا اطمینان چاہتا ہوں ‘‘ کہنا بھی اس بات کا اظہار ہے کہ انسان اپنے اطمینان کے لئے عالم غیب کی اشیاء اور معاملات کو بھی اپنے محسوسات کے دائرے میں گھیرنا چاہتا ہے۔