کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 64
سپرد کردیا جائے، اس میں علما کا ایک گروہ ان کا ہم نوا ہے۔ البتہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہما ، معاویہ رضی اللہ عنہ اور حسن رحمۃ اللہ علیہ ، زہری رحمۃ اللہ علیہ ، اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ، مالک رحمۃ اللہ علیہ ،ثوری رحمۃ اللہ علیہ ،لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علما کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ اس کا پانچواں حصہ (خمس) امام کو ادا کردیا جائے اور باقی کا صدقہ کردیا جائے۔ چرانے والے کو امام جس طرح کی سزا چاہے دے لے، لیکن اس کا مال و اسباب اور گھر جلایا نہ جائے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی نقطہ نگاہ ہے۔ مکحول رحمۃ اللہ علیہ ، حسن رحمۃ اللہ علیہ اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کا گھر اور اسباب سب جلا دیا جائے گا۔ صرف ہتھیار اور جوکپڑے اس نے پہنے ہوں ، وہ نہیں جلائے جائیں گے۔[1] مالِ غنیمت میں سے جو شخص کوئی چیز چراتا ہے اسے ’غال‘ (خائن) اور اس فعل کو’ غلول‘ (خیانت) کہا جاتاہے۔ غالّ کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کا جنازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھا۔ زید بن خالدجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر کے دن ایک جہنی شخص فوت ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس شخص کی وفات کا ذکر کیا گیا توآپ نے فرمایا: ”صلوا علی صاحبکم“ (یعنی اپنے ساتھی کا جنازہ ’تم خود ہی‘ پڑھو) آپ کی بات سن کر لوگوں کے چہرے متغیر ہوگئے۔ یہ دیکھتے ہوئے آپ نے فرمایا: ”إن صاحبکم غلّ من الغنیمة“ (تمہارے ساتھی نے غنیمت کے مال میں سے کوئی چیز چرائی تھی) [2] امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ آپ کا یہ فرمانا کہ تم جنازہ پڑھ لو اور خود نہیں پڑھا، کہ امام کے لئے مناسب نہیں کہ وہ ’غال‘ کی نمازِ جنازہ پڑھے۔ اس کے علاوہ باقی تمام لوگ جنازہ پڑھیں گے۔[3] یہ درحقیقت بددیانتی کے جرم کی شدت کے اظہار کی ایک صورت ہے۔ زکوٰة جمع کرنے والے کا ظالمانہ رویہ مالیاتی شعبے میں ایک اورشعبہ جس میں عام طور پر خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور جو حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھا دیتی ہیں وہ مال جمع کرنے والوں کا عوام کے ساتھ ظالمانہ رویہ ہے۔ یہ لوگوں سے محصول اور زکوٰة کے نام پر مقررہ شرح سے زائد وصول کرتے ہیں ۔ ایسا کرنے والے شخص کو صاحب ِمکس کہا گیا ہے ۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو متعینہ شرح سے زیادہ ازراہِ زیادتی وصول کرتا ہے۔[4] ان لوگوں کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ ٹیکس وصول کرتے وقت اپنی ذاتی جیب کے لئے لوگوں سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ جو ٹیکس دہندہ ان کا مطالبہ پورا کردیتا ہے، اسے کسی نہ کسی طرح چھوٹ اور رعایت مل جاتی ہے اور جو ایسا نہیں کرپاتے، ان کے لئے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں ۔ آج کے دور میں ان لوگوں کے طرزِعمل کو سمجھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو سخت ترین الفاظ میں متنبہ فرمایا کیونکہ یہ اپنے منصب سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اورملکی خزانے کی آمدنی پر بھی اثر انداز ہوتے
[1] (۱۱) عزم کی کمزوری بھول چوک اورعزم و ارادہ کی کمزوری بھی انسانی سرشت کا حصہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنت کے ایک درخت کے قریب جانے سے روکا ﴿فَلاَ تَقْرَبَا ھٰذِہٖ الشَّجَرَۃَ﴾ اور ساتھ تنبیہ کی کہ ﴿فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ اتنی سخت تنبیہ کے باوجود آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی۔ اس لغزش کی وجہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی بھول چوک اور عزم کی کمزوری بیان کی ہے، فرمایا: ﴿وَلَقَدْ عَھِدْنَا اِلٰی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا ﴾ (طہٰ ۲۰:۱۱۵) ’’ہم نے اس سے پہلے آدم کو ایک حکم دیا تھا مگر وہ بھول گیا۔ ہم نے اس میں عزم نہ پایا‘‘… مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : (تفہیم القرآن: جلد سوم، ص۱۳۰) ’’یہاں اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کی پوزیشن صاف کرنے کے لئے قصہ بیان نہیں کر رہا بلکہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ بشری کمزوری کیا تھی جس کا صدور اُن سے ہوا۔ اور جس کی بدولت صرف وہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہات کے باوجود اپنے دشمن کے پھندے میں پھنستی رہی ہے‘‘