کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 59
فرمان اپنی جگہ برحق ہے لیکن اس میں یہ کہاں ہے کہ جب تم تلاوت ختم کرو تو یہ کہو۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تلاوت سن کر آپ نے فرمایا: حَسْبُکَتیرے لئے یہ کافی ہے۔ یہ نہیں فرمایا: صدق اللّٰه العظيم لہٰذا اس سے احتراز ضروری ہے۔ سوال: اسی طرح جب قاری صاحب آیاتِ عذاب یا آیاتِ انعام تلاوت کرتا ہے توکیا سامعین اس کا جواب دے سکتے ہیں ۔ اگر دے سکتے ہیں تو سراً ہونا چاہئے یا جہراً۔ نیز حالت ِنماز میں اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:سامع یا مقتدی کا قاری کی تلاوت سے بعض آیات کا جواب دینا احادیث ِصحیحہ سے ثابت نہیں ،البتہ قاری یا امام کے لئے ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کی کیفیت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح کا ذکر ہوتا تو تسبیح کرتے اور جب سوال (والی آیت) سے گزرتے تو سوال کرتے اور جب تعوذ (والی آیت) سے گزرتے تو پناہ پکڑتے۔ عمیر بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے نمازِ جمعہ میں ﴿سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ﴾ پڑھنے پر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہا۔ بیہقی (۲/۳۱۱) مصنف عبدالرزاق (۲/۴۵۱) اس اثر کی سند صحیح ہے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس موقع پر یہی کلمات کہنا بسند ِحسن ثابت ہے۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو”القول المقبول فی تخريج وتعليق صلوٰة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اس موضوع پر عرصہ قبل ماہنامہ ’محدث‘ میں ایک تفصیلی فتویٰ جواب در جواب شائع شدہ ہے جو اربابِ ذوق کیلئے کافی مفید ہے۔ اس فتوی میں حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری، سید نذیر حسین دہلوی کی آراء پر تعلیقات کے علاوہ مولانا عطاء اللہ حنیف کا تبصرہ بھی بڑی تفصیل سے موجود ہے۔ دیکھئے محدث: ج۹/عدد ۱ ، صفحات ۳ تا۲۳ بابت دسمبر ۱۹۷۸ء سوال: کیا کوئی نابالغ بچہ صرف حافظ ِقرآن ہونے کی بنا پر رمضان میں تراویح یا غیر رمضان میں امامت کروا سکتا ہے، جبکہ بالغ، باشرع، پختہ مشق حفاظ موجود ہوں اور نابالغ حافظ بے قاعدگی سے نماز ادا کرتا ہو ․ جواب: نابالغ ممیز بچہ اہلیت کی بنیاد پر امامت کرا سکتا ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ کا قصہ اس امر کی واضح دلیل ہے۔ اس کا بیان ہے کہ ”فکنت أحفظ ذلک الکلام “ جو کلام لوگ نقل کرتے ، میں اسے یاد کرلیتا“ اور ابوداد کی روایت میں ہے ”کنت غلاما حافظا فخفظت من ذلک قرآن کثيرا“ میں یاد کرنے والا بچہ تھا۔ میں نے بہت سارا قرآن اس طرح سے یاد کرلیا تھا۔ بعض حنفیہ وغیرہ نے ا س پر اعتراض کیا ہے کہ اس کی امامت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے نہ تھی، لہٰذا قابل حجت نہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ زمانہ وحی میں کسی واقعہ کا وقوع پذیر ہونا جواز کی دلیل ہے۔ حضرت ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہ نے ’عزل‘ کے جواز پردلیل اس امر سے قائم کی کہ عہد نبوت میں ہوتا تھا اور اس سے روکا نہیں گیا۔ اور اگریہ فعل ناجائز ہوتا تو اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے آگاہ فرما دیتا ﴿وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِيًّا﴾ جس طرح کہ بحالت ِنماز آپ کی طرف وحی نازل ہوئی کہ جوتا میں گندگی لگی ہے۔ آپ نے اس کو اتار دیا، اس طرح معاملہ یہاں بھی ہوسکتا تھا۔ اس فعل سے منع نہ کرنا جواز کی دلیل ہے۔ حضرت عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ فرض نماز میں امام تھے۔ وتر اور تراویح تو فرضوں کی نسبت معمولی شئ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ہم (عورتیں ) معلّموں سے نابالغ لڑکے لاکر ان کو امام بنا لیتیں ۔ وہ ہم کو ماہِ رمضان میں نماز پڑھاتے، ہم ان کو (بطورِ خدمت) بھنا ہوا گوشت اور گندم کی روٹی کھلا دیا کرتی تھیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ نابالغ بچے گھروں میں عورتوں کو تراویح پڑھاتے تھے۔ ابن شہاب زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”نابالغ بچے جو نماز پڑھنا اور قرآن پڑھنا جانتے تھے، وہ رمضان اور غیر رمضان میں لوگوں کو نمازیں پڑھاتے تھے۔‘‘ (قیام اللیل:صفحہ ۱۷۴) باب إمامة الغلام الأدرلم يحتلم فی رمضان وغیرہ، تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو: مرعاة المفاتیح (۲/۱۱۲ تا ۱۱۴)