کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 58
دار ُالافتاء شیخ الحدیث حافظ ثنا ء ُاللہ مدنی
٭ محافل قراء ت میں اللہ اللہ کہنا ٭ آیات کا جواب دینا٭ نابالغ لڑکے کی امامت
سوال: محافل قراء ت میں قاری صاحبان تلاوت کرتے ہیں تو سامعین حضرات اونچی آواز سے اللہ اللہ کہہ کر قاری صاحب کو داد دیتے ہیں ۔ قرآن و سنت کی رو سے اس کی کیا حیثیت ہے اور کہاں تک گنجائش ہے؟
جواب:قاری کی تلاوت کے دوران اللہ، اللہ کہہ کرداد دینے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں بلکہ یہ عمل نص قرآنی
﴿وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَه وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾( الاعراف: ۲۰۴)
”اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ کے خلاف ہے۔ حق بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو معانی و مفاہیم سے ناواقفی کی بنا پر الفاظِ قرآن سے دراصل لذت وسرور حاصل ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کی لطف اندوزی محض قاری کی نغمہ سرائی پر موقوف ہے اوروہ اس کی حسین و جمیل آواز پرمرمٹنے والے ہیں ۔ اگرچہ تحسین صوت بھی مطلوب امر ہے لیکن امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”قرآنی حروف کو ان کی حدود سے متجاوز کرنا حرام ہے۔‘‘ پھر عامة الناس کی دلچسپی کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی سادہ آواز میں قرآن پڑھتا ہے تو سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ نفرت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ قرآن میں موٴمنوں کے اوصاف یوں بیان ہوئے ہیں :
﴿اِنَّمَا الْمُوٴْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُه زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا﴾ (الانفال: ۲)
”مومن تو وہ ہیں ،جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتاہے۔“
نیز فرمایا:
﴿تَقْشَعِرُّمِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰهِ ذٰلِکَ هُدَی اللّٰهِ يَهْدِیْ بِه مَنْ يَّشَاءُ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَه مِنْ هَادٍ﴾(الزمر: ۲۳)
”جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، ان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہوکر) اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ یہی اللہ کی ہدایت ہے وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو اللہ گمراہ کرے، اس کو کوئی ہدایت دینے والانہیں ۔“
پھر صحیح حدیث میں ہے ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن کی تلاوت کی ”فالتفت إليه فاذا عيناه تدمعان“ (متفق علیہ) ”ناگہانی میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔“ اس سے معلوم ہوا کہ قرآنی تاثیر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اثرات انسان کے دل و دماغ پر ظاہر ہوں نہ کہ اللّٰه اللّٰه، کمان کمان، يا أستاذ هيه هيه کہہ کر خانہ پری کی جائے، اس سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔
(السنن والمبتدعات: صفحہ ۲۱۹/۲۲۰)
سوال: کیا قراء کرام کا اختتامِ تلاوت پر ’صدق الله العظيم‘ قسم کے الفاظ کہنا جائز ہے؟
جواب : قرا ء ت کے اختتام پر صدق اللّٰه العظيم کہنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے: ”من أحدث فی أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ“
”جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے“
پھر متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تلاوتوں کے تذکرے احادیث کی کتابوں میں مرقوم ہیں لیکن کسی ایک سے بھی یہ کلمات ثابت نہیں ہوسکے۔ اگر کوئی کہے قرآن میں ہے: ﴿قُلْ صَدَقَ اللّٰهُ﴾ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کا
[1] (۸) اِضطراب و اِعراض
ہر طبقہ کے انسان اپنے اپنے مرتبہ و منصب کے مطابق مصائب و آلام کا شکار ہوتے ہیں ۔ غربا کے لئے فکر ِعیال، اُمرا کے لئے خوفِ مال، حکمرانوں کے لئے اندیشہ زوال… سب ہی اپنی اپنی مصیبتوں میں خدا کو پکارتے ہیں ۔ حتیٰ کہ الحاد زدہ انگلستان کو بھی جب جرمنی سے خطرہ درپیش تھا تو ملک کے اندر عیسائیوں کے گرجے، ہندؤوں کے مندر اور مسلمانوں کی مسجدیں غرضیکہ ہر مذہب و ملت کی عبادت گاہیں سرکاری طور پر دعا کے لئے منتخب کی گئیں ۔ مصیبت میں یہ عاجزی و انکساری اور آہ و زاری اور دفع مصیبت کے بعد خدا اور اس کے احکام سے کھلم کھلا بیزاری انسانی فطرت کے عجائب ہیں ،
﴿اِذَا اَنْعَمْنَا عَلٰی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَآ بِجَانِبِہٖ وَاِذَا مَسَّہٗ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَائٍ عَرِیْضٍ﴾ (الاسراء ۱۷:۸۳)
’’جب ہم انسان پر اپنی نعمتیں نازل کرتے ہیں تو وہ اِعراض کرتاہے، اور اپنا پہلو بچاتا ہے اور جب مبتلائے مصیبت ہوتا ہے تو لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتا ہے‘‘
غربت واِفلاس کی زندگی گزارنے کے بعد اگر کسی کو حسن اتفاق یا قوتِ بازو سے کوئی وسیلہ رزق حاصل ہوجاتا ہے تو وہ اپنے اللہ، انسان، اقربا، قوم، مذہب سب کے حقوق بھول جاتا ہے :
﴿وَلَئِنْ اَذَقْنَا الانْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً ثُمَّ نَزَعْنٰھَا مِنْہُ اِنَّہٗ لَیَئُوْسٌ کَفُوْرٌ وَلَئِنْ اَذَقْنَاہُ نَعْمَائَ بَعْدَ ضَرَّائَ مَسَّتْہٗ لَیَقُوْلَنَّ ذَھَبَ السَّیِئَاتُ عَنِّیْ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخَوْرٌ﴾ (ہود ۱۱:۱۰،۹)
’’جب ہم انسان کو اپنی کوئی رحمت چکھاتے ہیں پھر اس سے چھین لیتے ہیں تو وہ نا امید اور ناشکرا ہوجاتاہے اور جب ہم اسے پریشانی کے بعد نعمت چکھاتے ہیں تو وہ ضرور کہتا ہے کہ میری پریشانیاں دور ہوگئیں او راترانے ، فخر کرنے لگتا ہے ‘‘
اِنسان ربّ کی عطاکردہ نعمتوں کو اپنا استحقاق گردانتا ہے اور فراوانی رِزق کو اپنی خوبی قرار دیتا ہے:
﴿وَلَئِنْ اَذَقْنَاہُ رَحْمَۃً مَّنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّائَ مَسَّتْہٗ لَیَقُوْلَنَّ ھٰذَا لِیْ﴾ (فصلت ۴۱:۵۰)
’’اور اگر انسان پر مصیبت کے بعد راحت آتی ہے تو کہتا ہے کہ یہ جو کچھ ہے وہ میرے سبب سے ہے‘‘
انسان کشائش رِزق اور تنگی و ضیق حیات کی حالت کو دو عجیب و غریب اَثرات کی طرف منسوب کرتا ہے۔فراوانی رِزق کو اپنے پروردگار کی طرف سے اپنی تعظیم قرار دیتا ہے جبکہ تنگی رزق پر اپنی کوتاہیوں پر اپنے آپ کو ملامت کرنے کی بجائے خدا پر اپنی خفگی کا اظہار کرتا ہے
﴿فَاَمَّا الْاِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاہٗ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبیِّ اَکْرَمَنِ وَاَمَّا اِذَا مَا ابْتَلاَہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْ اَھَانَنِ﴾ (ا لفجر۸۹:۱۵)
’’انسان کو جب اس کا ربّ آزماتا ہے تو اس پر کرم کرتا ہے اور اسے نعمتیں دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے پروردگار نے میری تعظیم کی اور جب اسے آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے ربّ نے مجھے ذلیل کرکے رکھ دیا ‘‘