کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 56
بہت فوائد ہیں “[1] انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کا ’تفسیر ابن کثیر‘ کے بارے میں یہ بیان ہے: ”ابن کثیر کی تفسیر بنیادی لحاظ سے فقہ اللغة کی کتاب ہے اور یہ اپنے اسلوب کے لحاظ سے اوّلین کتب میں شمار ہوتی ہے۔ بعد میں سیوطی نے جو کام کیا، اس پر اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں “[2] خلاصہ کلام یہ کہ امام ابن کثیر ان تمام علوم و شرائط پر حاوی نظر آتے ہیں جن کا جاننا ایک مفسر کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے نہایت تحقیق اور دِقت نظری سے تفسیر قرآن کو مرتب کیاہے جو قیمتی معلومات کا گنجینہ اور نہایت گراں بہا تفسیری ورثہ ہے۔اگرچہ توسع کی بنا پر اس کتاب میں بعض مقامات پراعلیٰ اور بلند محدثانہ معیار خاطر خواہ قائم نہیں رہ سکا ہے، تاہم اہل نظر کو اعتراف ہے کہ محدثانہ نقطہ نظر سے یہ سب سے زیادہ قابل اعتماد تفسیر ہے۔ کتب ِتفسیر بالماثور میں اس کو امتیازی مقام حاصل ہے اور متاخرین نے ایک بنیادی مصدر کی حیثیت سے اس سے خوب استفادہ کیا ہے۔ جوشخص قرآن حکیم کے مطالب و معانی اور اسرار ورموز سے آگاہ ہونا چاہتا ہے وہ تفسیر ابن کثیر سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔٭ ٭ حوالہ جات ۱۔الداودی، طبقات المفسرین، ۱/۱۱۲۔ بعض موٴرخین نے ابن کثیر کاسن ولادت ۷۰۰ہجری قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو، شذرات الذھب لابن العماد، ۶/۲۳۱، ذیل طبقات الحفاظ لجلال الدین السیوطی، صفحہ ۳۶۱، مطبعة التوفیق بدمشق، ۱۳۴۷ھ، عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر لاحمدمحمدشاکر،۱/۲۲، دارالمعارف القاہرة، ۱۳۷۶ھ/۱۹۵۶ء۔ اسماعیل پاشا بغدادی، امام ابن کثیر کا زمانہ ولادت ۷۰۵ہجری بیان کرتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو، ہدیة العارفین، اسماء الموٴلفین و آثار المصنیفین، ۱/۲۱۵، وکالة المعارف، استانبول، ۱۹۵۵ء امام صاحب کے سن ولادت کے بارے میں اسماعیل پاشا البغدادی کا بیان درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ امام صاحب کے والد ۷۰۳ہجری میں فوت ہوئے۔ امام ابن کثیر کا اپنا بیان ہے کہ میں اپنے والد کی وفات کے وقت تقریباً تین سال کا تھا۔ ملاحظہ ہو، البدایہ والنھایة لابن کثیر، ۱۴/۳۲، خود امام ابن کثیر اپنی کتاب ”البدایہ والنھایة“ میں ۷۰۱ھ کے واقعات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں ”وفیھا ولد کاتبہ اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی“ (البدایہ والنھایہ، ۱۴/۲۱) ۲۔احمدمحمدشاکر، عمدہ التفسیر، ۱/۲۲۔ بعض مآخذ کے مطابق ابن کثیر دمشق کے مضافات میں مشرقی بصریٰ کی ایک بستی ”مجدل القریة“ میں پیدا ہوئے۔ (ملاحظہ ہو، ذیل تذکرة الحفاظ لابی المحاسن شمس الدین الحسینی، صفحہ ۵۷، مطبعة التوفیق، دمشق، ۱۳۴۷ھ) جبکہ مطبوعہ ’البدایہ والنھایہ‘ میں ’مجیدل القریة‘ منقول ہے (البدایہ والنھایہ لابن کثیر، ۱۴/۳۱) عمر رضا کحالہ نے مقام ولادت ”جندل“ تحریر کیا ہے۔ (معجم الموٴلفین، ۳/۲۸۴، مطبعة الترقی بدمشق، ۱۳۷۶ھ/۱۹۵۷ء) ۳۔الذہبی، شمس الدین، تذکرة الحفاظ، ۴/۱۵۰۸، مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانیہ، حیدرآباددکن الھند، ۱۳۷۷ھ / ۱۹۵۸ء ابن العماد، شذرات الذھب، ۶/۲۳۱، الشوکانی، محمدبن علی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع، مطبعة السعادة القاھرہ، الطبعة الاولیٰ، ۱۳۴۸ھ