کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 55
تفسیر ابن کثیر کی قدرومنزلت
موٴرخین اور اصحابِ نظر اس تفسیر کی تعریف اور توصیف میں رطب اللسان ہیں :
امام سیوطی کی رائے ہے کہ ”اس طرز پر اب تک اس سے اچھی کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی“[1]
صاحب ِ’البدر الطالع‘ فرماتے ہیں :
”ابن کثیر نے اس میں بہت سا مواد جمع کردیاہے ۔ انہوں نے مختلف مذاہب و مسالک کا نقطہ نظر اور اخبار و آثار کا ذخیرہ نقل کرکے ان پر عمدہ بحث کی ہے۔ یہ سب سے بہترین تفسیر نہ سہی، لیکن عمدہ تفاسیر میں شمار ہوتی ہے“[2]
ابوالمحاسن الحسینی کا بیان ہے:
”روایات کے نقطہ نظر سے یہ سب سے مفید کتاب ہے کیونکہ (ابن کثیر) اس میں اکثر روایات کی اسناد پر جرح و تعدیل سے کلام کرتے ہیں او رعام روایت نقل کرنے والے مفسرین کی طرح وہ مرسل روایتیں ذکر نہیں کرتے“[3]
علامہ احمد محمد شاکر لکھتے ہیں :
”امامِ مفسرین ابوجعفر طبری کی تفسیر کے بعد ہم نے عمدگی اور گہرائی میں (تفسیر ابن کثیرکو ) سب سے بہتر پایا ہے اورہم نہ تو ان دونوں کے درمیان اور نہ ہی ان کے بعد کی کسی تفسیر سے جو ہمارے سامنے ہیں ، موازنہ کرسکتے ہیں ۔ ہم نے ان دونوں جیسی کوئی تفسیر نہیں دیکھی اور نہ کوئی تفسیر ان کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ علماء کے نزدیک یہ تفسیر، حدیث کے طالب علموں کے لئے اسانید و متون کی معرفت اور نقد و جرح میں بہت معاون ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک عظیم علمی کتاب ہے اور اس کے
[1] حصول کے لئے اس کے ہاں دعاؤں اور منتوں کے اَنبار ، نذر و نیاز کا پشتارہ اور خیرات و صدقات کی فراوانی نظر آتی ہے۔ مگر مقصود حاصل ہوتے ہی اندیشہ فردا، خیالِ مستقبل اور بچوں کی فکر آگھیرتی ہے۔اس وقت تکمیل منت تو درکنار معمولی سے معمولی صدقات کے دروازے بھی وہ بند کردیتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے : ﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا اِذَا مَسَّہٗ الشَّرُ جَزْوْعًا وَاِذَا مَسَّہْ الْخَیْرُ مَنُوْعًا﴾ (المعارج ۷۰: ۲۱،۲۰،۱۹) ’’بے شک انسان تھڑدِلا پیدا کیا گیا ہے، جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اُٹھتا ہے اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے‘‘