کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 54
سے سوال کریں ، اس کی طرف تضرع و زاری کریں ، اپنی مسکینی و بے کسی کا اقرار کریں ، اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں ، اس کی وحدانیت واُلوہیت کااقرار کریں اور اسے شریک، نظیر اور مماثل سے پاک اور برتر جانیں ۔ اس سے صراطِ مستقیم اور اس پر ثابت قدمی طلب کریں ۔ یہی ہدایت انہیں قیامت کے دن پل صراط سے بھی پار پہنچا دے گی اور نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کے قرب میں جنت الفردوس میں جگہ دلوائے گی۔ یہ سورة نیک اعمال کی ترغیب پر بھی مشتمل ہے تاکہ قیامت کے دن نیک لوگوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے خوف دلایا گیا ہے تاکہ قیامت کے دن ان کی جماعتوں سے دوری ہو“[1]
﴿وَيُقِيمْوْنَ الصَّلوٰةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ﴾ (البقرة:۳) کے تحت لکھتے ہیں :
”قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز قائم کرنے اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا ملتا ہے، اس لئے کہ نماز خدا کا حق ہے اوراس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثنا، اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں ، پھر دور والے اجنبی، پس تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰة اس میں شامل ہے“[2]
سورة ہود کی آیت :۹۴ ﴿وَاَخَذَتِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا الصَّيْحَةَ﴾ کے سلسلے میں لکھتے ہیں :
”یہاں صیحة، اعراف میں رجفة اور سورة شعراء میں عذاب یوم الظلة کا ذکر ہے۔ حالانکہ یہ ایک ہی قوم کے عذاب کا تذکرہ ہے، لیکن ہر مقام پر اس لفظ کو لایا گیا ہے جس کاموقع کلام متقاضی تھا۔ سورة اعراف میں حضرت شعیب علیہ السلام کو قوم نے بستی سے نکالنے کی دھمکی دی تھی، اس لئے رجفة کہنا مناسب تھا۔ یہاں چونکہ پیغمبر سے ان کی بدتمیزی اور گستاخی کا ذکر تھا، اس لئے صیحةکا لفظ لایا گیا ہے اور سورة الشعراء میں انہوں نے بادل کا ٹکڑا آسمان سے اتارنے کا مطالبہ کیا تھا، اس لئے وہاں ﴿فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ﴾ کہا گیا اور یہ سب اسرارِ دقیقہ ہیں “[3]
حیرانگی کی بات ہے کہ یہی اسلوب بعد میں علامہ محمود آلوسی نے اپنایا ہے۔
مصادر و مراجع کی نشاندہی
امام ابن کثیر آیات کی تفسیر کرتے ہوئے بوقت ِضرورت اضافی معلومات اور اختلافی نکات کو نمایاں کرنے کے لئے اکثر موٴلفین کے نام اور بعض اوقات ان کی کتابوں کے حوالے دیتے جاتے ہیں ، جن کو تصنیف ِممدوح میں مرجع بنایا گیاہے۔ اس طریقہ کار کے ضمنی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ محققین کے لئے ان مصادر سے براہِ راست مستفیض ہونے کی سہولت ہوگئی، دوسرا یہ کہ سابقہ موٴلفین کی بیش قیمت آراء اور ان کی بہت سی ایسی کتابیں جو اب نایاب ہیں ، ان کے نام اور اقتباسات/ نمونے بھی محفوظ ہوگئے۔
[1] (۷) تھڑدِلی
انسان کی تمناؤں اور آرزؤں کے نتائج مختلف اَشکال، حرص و طمع، جزع و فزع کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں ۔جب فراوانی ٔرِزق، اختیارات، سلطنت اور عزت و شہرت حاصل ہوتی ہے تو وہ اِترانا شروع کردیتا ہے اور جونہی اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو بالکل بے حوصلہ ہوجاتا ہے۔ بڑے سے بڑا مضبوط اعصاب کا مالک اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تنگدستی کے وقت خوشحالی کے