کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 52
”بعض کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ کا لقب اس لئے ملا کہ ایک دفعہ قحط سالی کے موقع پر آپ اپنے دوست کے پاس مصر یا موصل گئے تاکہ وہاں سے کچھ اناج وغیرہ لے آئیں ، لیکن یہاں کچھ نہ ملا اور خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ جب آپ واپس اپنی بستی کے قریب پہنچے تو خیال آیا کہ ریت کے تودے میں سے اپنی بوریاں بھر کر لے چلوں تاکہ گھر والوں کو قدرے تسکین ہوجائے، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور ریت سے بھری بوریاں جانوروں پر لاد کر چلے۔ قدرتِ خداوندی سے وہ ریت سچ مچ آٹا بن گئی۔ آپ تو گھر پہنچ کر لیٹ گئے، تھکے ہارے تھے، آنکھ لگ گئی۔ گھر والوں نے بوریاں کھولیں اور انہیں بہترین آٹے سے بھرا ہوا پایا، آٹا گوندھا اور روٹیاں پکائیں ۔ جب یہ جاگے اور گھر میں سب کو خوش پایا اور روٹیاں بھی تیار دیکھیں تو تعجب سے پوچھنے لگے: آٹا کہاں سے آیا جس سے روٹیاں پکائیں ؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہی تو اپنے دوست کے ہاں سے لائے ہیں ۔ اب آپ سمجھ گئے اور فرمایا: ہاں ! یہ میں اپنے دوست اللہ عزوجل سے لایا ہوں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو اپنا دوست بنا لیا اور آپ کا نام خلیل اللہ رکھ دیا“[1] اسی طرح ﴿وَأيُّوْبَ إذْ نَادیٰ رَبَّهُ أنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأنْتَ أرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ﴾ (الانبیاء:۸۳) کے تحت بعض ایسی روایات نقل کی ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں ۔[2] ﴿وَاٰتَيْنَاهُ اَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً﴾ (الانبیاء: ۸۴) کی تفسیر میں ایک روایت تحریر ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی کا نام ’رحمت‘ ہے۔ [3] ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس قسم کی روایات میں یہ انداز اختیار کرتے ہیں کہ ان کی تصدیق یا تکذیب کئے بغیر واللہ اعلم کہہ کر ان پر نقد و تبصرے سے گریز کرتے ہیں ۔ غیر ضروری مسائل کی تحقیق و تجسس سے اِحتراز کتب ِتفسیر کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ ان میں غیر ضروری اور بے سود باتوں کی تحقیق بڑے اہتمام سے کی جاتی ہے جو قرآن کے مقصد ِتذکیر و استدلال کے بالکل خلا ف ہے۔ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے مسائل کی تحقیق و جستجو کی نہ صرف مذمت کی ہے۔ اپنی تفسیر میں نہ صرف غیر ضروری اور غیراہم مباحث کے ذکر سے حتی الامکان پرہیز کیاہے بلکہ ایسے مسائل کی تحقیق وجستجو کی پرزور مذمت کی ہے، مثلاً ﴿فَخُذْ أرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ﴾(البقرة:۲۶۰) کے متعلق لکھتے ہیں : ”ان چاروں پرندوں کی تعیین میں مفسرین کا اختلاف ہے ، حالانکہ ان کی تعیین بے سود اور غیر ضروری ہے۔ اگر یہ کوئی اہم بات ہوتی تو قرآن ضرور اس کی تصریح کرتا“[4] وسیع معلومات ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر قرآن مرتب کرنے کے لئے ہر اس حدیث اور اثر کو جمع کیا جو اس میدان میں ممکن
[1] (۶) ظلم و جہالت انسان فطرۃ ً سادہ اور بے باک ہے۔ سادگی اسے ہر خوشنما اور دلفریب صورت کا شیفتہ بنا دیتی ہے اور بے باکی اسے خطرات میں گھیر دیتی ہے۔ اس کی سادگی نے اسے عقل کے جال میں پھنسایا اور اس کی بے باکیوں نے اسے زمین پر پٹخ دیا۔ یہ اس کی بے باکی و نادانی ہی ہے کہ جس بار کو آسمان و زمین نے اٹھانے سے اِنکار کردیا، انسان نے اسے اپنی بے باکی اور جہالت و نادانی کی وجہ سے اٹھالیا: ﴿فَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلاً ﴾ (الاحزاب ۳۳:۸۲)