کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 51
”ہمارا مسلک یہ ہے کہ تفسیر میں اسرائیلی روایات سے احتراز کیا جائے۔ ان میں پڑنا وقت کا ضیاع ہے۔ اس قسم کی اکثر روایتوں میں جھوٹ بھی ہوتا ہے، کیونکہ اس امت کے ائمہ فن اور ناقدین حدیث کی طرح اہل کتاب نے صحیح و سقیم میں تفریق نہیں کی“[1] اگرچہ تفسیر ابن کثیر بھی اسرائیلیات سے خالی نہیں ہے تاہم اس کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں موٴلف اسرائیلی واقعات محض استشہاد کے طور پر بیان کرتے ہیں ۔ جن پر اجمالاً اور بعض اوقات تفصیلاً نقد و جرح کرتے ہیں ، مثلاً سورة البقرة کی آیت :۶۷ ﴿ إنَّ اللّٰهَ يَامُرُکُمْ أنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی گائے کا طویل قصہ ذکر کیا ہے۔ پھراس میں سلف سے منقول روایات تحریر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ”ابوعبیدہ، ابوالعالیہ اور سدی سے جو روایات منقول ہیں ، ان میں اختلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ روایات بنی اسرائیل کی کتابوں سے ماخوذ ہیں ۔ بلاشبہ ان کو نقل کرنا درست ہے مگر ان کی تصدیق و تکذیب نہیں کی جاسکتی، لہٰذا ان پر اعتماد کرنادرست نہیں ماسوا اس روایت کے جو اسلامی حقائق کے مطابق ہو“[2] اسی طرح سورة انبیاء کی آیت ۵۱ ﴿وَلَقَدْ اٰتَيْنَا إبْرَاهِيْمَ رُشْدَہُ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِهِ عٰلِمِيْنَ﴾ کے تحت تحریر کرتے ہیں : ”یہ جو قصے مشہور ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دودھ پینے کے زمانے میں ہی ان کی والدہ نے انہیں ایک غار میں رکھا تھا جہاں سے وہ مدتوں بعد باہر نکلے اور مخلوقاتِ خدا پر خصوصاً چاند، تاروں وغیرہ پر نظر ڈال کر خدا کو پہچانا، یہ سب بنی اسرائیل کے افسانے ہیں ۔ ان میں سے جو واقعہ کتاب و سنت کے مطابق ہو وہ سچا اور قابل قبول ہے اس لئے کہ وہ صحت کے مطابق ہے اور جو خلاف ہو وہ مردود اور ناقابل قبول ہے اور جس کی نسبت ہماری شریعت خاموش ہو، مخالفت و موافقت کچھ نہ ہو، گو اس کا روایت کرنا بقول اکثر مفسرین جائز ہے، لیکن نہ تو ہم اسے سچا کہہ سکتے ہیں نہ غلط۔ ان (اسرائیلیات) میں سے اکثر واقعات ایسے ہیں جو ہمارے لئے کچھ سند نہیں اور نہ ہی ان میں ہمارا کوئی دینی نفع ہے۔ اگر ایسا ہوتاتو ہماری جامع، نافع، کامل و شامل شریعت اس کے بیان میں کوتاہی نہ کرتی“[3] لیکن زیر بحث تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اسرائیلیات کے بارے میں اپنے موٴقف اور نظریہ پر مکمل طور پر کاربند نہ رہ سکے اور تساہل و تسامح اختیار کرتے ہوئے بعض ایسی روایات بھی بیان کی ہیں جن کو فی الواقع خود ان کے اصول کے مطابق اس تفسیر میں شامل نہیں کرنا چاہئے تھا، مثلاً ﴿اِتَّخَذَ اللّٰهُ إبْرَاهِيْمَ خَلِيْلًا﴾(النساء:۱۲۵) کے متعلق ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ایک اسرائیلی روایت ذکر کی ہے جس کی حقیقت داستان سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ وہ لکھتے ہیں :
[1] (۵) بخل رفاہِ عامہ، صلہ رحمی، شخصی احسان اور انفاق فی سبیل اللہ کی مدات میں انسان خرچ کرتے ہوئے دل میں تنگی محسوس کرتا ہے جبکہ بخل اور کنجوسی کی کتنی ہی شکلیں ہیں جو سخاوت و اسراف کی حالت میں بھی پوشیدہ رہتی ہیں ۔ دل ایک قسم کی بے چینی و کرب میں مبتلا رہتا ہے۔ ان سب سے بالاتر فکر ِفردا اسے بری طرح ستاتی ہے۔ وہ سیم و زر رکھتے ہوئے بھی اِفلاس و تنگدستی سے ڈرتا رہتا ہے۔ ایک بندۂ مومن بھی یہ جاننے کے باوجود کہ تنگدستی کا ڈراوا شیطان کی طرف سے ہے ﴿الشَّیْطَانُ یَعِدُکُمْ الْفَقْرَ﴾ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کا وعدہ بھی کیا ﴿وَاللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلاً﴾ اور باوجود ہر قسم کی کثرت و ثروت کے، خرچ کرتے وقت مال کے ہاتھ سے نکل جانے کا کم سے کم ایک ہلکا سا رنج ضرور محسوس کرتا ہے ﴿قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِکُوْنَ خَزَائِنَ رَحْمَۃِ رَبِّیْ اِذًا لَّاَمْسَکْتُمْ خَشَیْۃَ الْاِنْفَاقِ وَکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا﴾ (الاسراء۱۷:۱۰۰)’’کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ میرے ربّ کی رحمت کے خزانوں کے مالک بھی بنا دیئے جاؤتو بھی خرچ ہوجانے کے ڈر سے بخل کرو گے اور انسان بڑا ہی بخیل اور کم خرچ ہے‘‘…اسی بخل و کنجوسی کی بڑی وجہ انسان کی حب ِمال ہے جو انسان کے اندر ایک طاقتور جذبہ ہے ﴿وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ﴾اس کا اظہار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسی عظیم المرتبت شخصیات سے بھی کبھی جنگ ِاُحد میں حضور کی نافرمانی کی صورت میں ہوتا ہے تو کبھی جنگ ِحنین کے مالِ غنیمت کی تقسیم پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی بدگمانی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔