کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 50
ہیں کہ یہ آیت چار مہینے دس دن والی عدت کی آیت یعنی ﴿وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَيَذَرُوْنَ أزْوَاجاً يَّتَرَبَّصْنَ بِأنْفُسِهِنَّ أرْبَعَةَ أشْهُرٍ وَّعَشْراً﴾ (البقرة:۲۳۴) سے منسوخ ہوچکی ہے۔ [1] ﴿اِنْفِرُوْ خِفَافاً وَّثِقَالاً وَجَاهِدُوْا بِأمْوَالِکُمْ وَأنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ… الخ﴾ (التوبة:۴۱) کے تحت لکھتے ہیں : ”کہ اس آیت میں غزوہ تبوک کے لئے تمام مسلمانوں کو ہرحال میں نبی اکے ہمراہ جانے کا حکم دیا گیا ہے، خواہ کوئی آسانی محسوس کرے یا تنگی،بڑھاپے کی حالت ہو یا بیماری کا عذر۔ لوگوں پر یہ حکم گراں گزرا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے آیت ﴿لَيْسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ وَلَا عَلَی الْمَرْضیٰ وَلَا عَلَی الَّذِيْنَ لاَيَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرْجٌ إذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهِ﴾ (التوبة:۹۱) سے منسوخ کردیا۔ یعنی ضعیفوں ، بیماروں اور تنگ دست فقیروں پر جبکہ ان کے پاس خرچ تک نہ ہو، اگر وہ دین خدا اور شریعت مصطفی ا کے حامی، طرفدار اور خیرخواہ ہوں تو میدانِ جنگ میں نہ جانے پر کوئی حرج نہیں “[2] تلخیص کلام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے اندازِتفسیر کی ایک خصو صیت یہ بھی ہے کہ وہ کسی آیت کی تفسیر میں جامع بحث اور تبصرے کے بعد اس کا خلاصہ تحریر کرتے ہیں اور اخذ کردہ نتائج کوسامنے لاتے ہیں ، مثلاً آیت ﴿فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِيْضاً أوْ عَلٰی سَفَرٍ… الخ﴾ (البقرة:۱۸۴) کے متعلق اَحادیث و اقوال کی روشنی میں طویل گفتگو کے بعد اس کا لب ِلباب تحریرکیا ہے۔[3] آیت ﴿قُلْ إنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَيْرِ الْحَقِّ﴾ (الاعراف:۳۳) کے تحت تشریح و توضیح کے بعد لکھتے ہیں : ”حاصل بحث تفسیر یہ ہے کہ إثم سے مراد وہ خطائیں ہیں جو فاعل کی اپنی ذات سے متعلق ہیں اور بغی وہ تعدی ہے جو لوگوں تک متجاوز ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں چیزوں کو حرام فرمایاہے۔“[4] خصوصیات تفسیر ابن کثیر کی چند نمایاں خصوصیات جو اسے دیگر تفاسیر سے ممتاز کرتی ہیں ، درج ذیل ہیں : اسرائیلیات منقولی تفاسیر کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ ان میں اسرائیلی خرافات کثرت سے نقل کی گئی ہیں ، ایسی روایات کے بارے میں ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنانقطہ نظر ’تفسیر القرآن العظیم‘ میں یوں بیان کرتے ہیں :
[1] (۴) عجلت انسانی سرشت میں جلد بازی کا عنصر شامل ہے۔ کوئی بھی اعلیٰ مقصد ایک طرف قربانیوں کا طالب ہوتاہے تودوسری طرف حصولِ مقصد کے لئے رفتارِ کار کے مطابق مدت بھی درکار ہوتی ہے۔ اس کے برعکس انسان اپنی جدوجہد اور عمل کے نتائج جلد دیکھنا چاہتا ہے: ﴿کَلاَّ بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ﴾ (القیامہ ۷۵:۲۰) اس کی وجہ یہ ہے کہ عجلت انسان کے خمیر میں شامل ہے ﴿خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ﴾ (الانبیاء ۲۱:۳۷) انسان اپنی اس عجلت پسندی کی وجہ سے خیر وبھلائی اور نفع اندوزی کے لئے ہی جلد بازی نہیں بلکہ اپنی پست ہمتی، بے صبری اور زور پسندی کی وجہ سے بعض اوقات اپنے لیے ناگہانی آفت یا اتفاقی موت تک کی دعائیں بھی مانگنا شروع کردیتا ہے: ﴿وَیَدْعُ الاْنِسْانُ بِالشَّرِّ دُعَائَ ہٗ بِالْخَیْرِ وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلاً﴾(الاسراء ۱۷:۱۱) ’’انسان اپنی بھلائی کی طرح اپنی برائی کے لئے بھی دعا کرنے لگتا ہے کیونکہ انسان جلد باز ہے‘‘ …جس طرح نیکی کے پرچارک اپنی نیکی کے نتائج فوری دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں ، اسی طرح منکرین حق بھی اپنی طاقت کی بدمستی میں عذابِ الٰہی کے نزول کے لئے جلدی مچا رہے ہوتے ہیں : ﴿وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ﴾ (العنکبوت ۲۹:۵۳)