کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 49
ساتھ سرانجام دیئے جاتے ہیں ۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ نماز کو ’صلوٰة‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے او راپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے او ریہ بھی کہا جاتاہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف آتی ہیں ، انہیں عربی میں صلوین کہتے ہیں ۔ چونکہ نماز میں یہ حرکت کرتی ہیں ، اس لئے نماز کو صلوٰة کہا گیا ہے، لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ہے۔ بعض نے یہ کہا کہ یہ ماخوذ ہے صلی سے، جس کے معنی ہیں : چپک جانا اور لازم ہوجانا، جیسا کہ قرآن میں ہے ﴿ لاَ يَصْلَاهَا ﴾ یعنی جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت۔ بعض علما کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لئے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب اسے تَصْلِیَة کہتے ہیں ۔چونکہ نمازی بھی اپنے نفس کی کجی اور ٹیڑھ پن کو نماز سے درست کرتا ہے، اس لئے اسے صلوٰة کہتے ہیں جیسے قرآن میں ہے: ﴿إنَّ الصَّلوٰةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اللّٰهِ أکْبَرُ﴾ ”یعنی نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کاذکر ہی بڑا ہے“ لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح ہے اور زیادہ مشہور ہے۔واللہ اعلم“[1] ابن کثیر مترادفات پربھی خوبصورت انداز میں بحث کرتے ہیں ۔ قرآن مجید میں قلیل اور تھوڑی مقدار کے لئے بطورِ تمثیل نَقِیْر، فَتِیْل اور قِطْمِیْرکے اَلفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ موصوف سورة نساء کی آیت۱۲۴ ﴿وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ أوْ انْثیٰ وَهُوَ مُوٴمِنٌ فَأولٰئِکَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَلاَيُظْلَمُوْنَ نَقِيْرًا﴾ کے تحت مذکور الفاظ کی تشریح کرتے ہیں : وهو النقرة التی فی ظهر نواة التمر، وقد تقدم الکلام علی الفتيل وهو الخيط الذی فی شق النواة وهذا النقير وهما فی نواة التمرة والقطمير وهو اللفافة التی علی نواة التمرة والثلاثة فی القرآن ”کھجور کی گٹھلی کی پشت پر جو ذرا سی جھلی ہوتی ہے، اسے نقیرکہتے ہیں ۔ گٹھلی کے شگاف میں جو ہلکا سا چھلکا ہوتا ہے، اس کو فتیل کہتے ہیں ۔یہ دونوں کھجور کے بیج میں ہوتے ہیں اور بیج کے اوپر کے لفافے کو قِطمیرکہتے ہیں اور یہ تینوں لفظ اس موقع پر قرآن میں آئے ہیں “[2] ناسخ و منسوخ ناسخ و منسوخ کی شناخت فن تفسیر میں نہایت اہم ہے۔ ا س علم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم کی کون سی آیت محکم ہے او رکون سی متشابہ۔ مفسر قرآن کے لئے اس علم میں مہارت نہایت ضروری ہے تاکہ وہ صحیح معنوں میں اَحکامات و مسائل کی توضیح و تشریح کرسکے۔ ابن کثیر اس علم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ وہ ناسخ و منسوخ آیات کی وضاحت ، ان کے بارے میں مفسرین اور فقہا کی اختلافی آرا اور جمہور کی تائید میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں ، مثلاً﴿وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَيَذَرُوْنَ أزْوَاجًا وَصِيَّةً لأزْوَاجِهِمْ مَتَاعاً إلَی الْحَوْلِ… الخ﴾ (البقرة:۲۴۰) کے متعلق اکثر صحابہ و تابعین سے نقل کرتے
[1] (۳) جھگڑالوپن انسان جس چیز کو اچھا اور بہتر سمجھتا ہے، اس کا چلن اور غلبہ ہر جگہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے وہ تعلیم و تبلیغ سے لے کر قوت و سطوت کے ہر ہتھیار کو آزماتا ہے۔ اس کی پسند و ناپسند کے برعکس دوسری طرف سے اس کو تعاون کی بجائے اکثر مخالفت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کشاکش کا لازمی نتیجہ ہے کہ انسان مقابلہ و مجادلہ کے لئے تیار رہے۔ مقابلہ بازی کے بطن سے ضد، ہٹ دھرمی اور عصبیت بے جا کے رذائل پیدا ہوتے ہیں حتیٰ کہ جب کبھی اس کے سامنے کوئی بھلی اور نیک بات بھی پیش کی جاتی ہے تو وہ جدال و نزع کے لئے تیار ہوجاتاہے۔ ﴿ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْیٍٔ جَدَلاً﴾(الکہف ۱۸:۵۴) ’’انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے‘‘ ایک دوسرے مقام پر ارشادِ خداوندی ہے ﴿خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ﴾(النحل ۱۶:۴)