کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 48
ڈالے، جس سے ان کو یہ وہم ہوگیا کہ یہ الفاظ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے ہیں ۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا بلکہ یہ صرف شیطانی حرکت تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘[1] علم القراء ت اور لغوی تحقیق ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حسب ِموقع اختلافِ قراء ت و اِعراب ، صرفی و نحوی ترکیب اور اَلفاظ کی لغوی تحقیق کے علاوہ ان کے مصادر، تثنیہ، جمع اور اصطلاحی مفہوم بھی بیان کرتے ہیں ، مثلاً آیت ﴿وَلَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِیْ الأرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ﴾(الاعراف:۱۰) میں لفظ ’معایش‘ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں : ”لفظ معایش کو سب لوگ ’ی‘ کے ساتھ پڑھتے ہیں یعنی ہمزہ کے ساتھ معائش نہیں پڑھتے، لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اس کو ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں ، اور صحیح تو یہی ہے جو اکثر کا خیال ہے یعنی بلا ہمزہ، اس لئے کہ معايش جمع معيشة کی ہے۔ یہ مصدر ہے، اس کے اَفعال عاش، يعيش، معيشة ہیں ۔ اس مصدر کی اصلیت ہے معیشة، کسرہ’ی‘ پرثقیل تھا، اس لئے عین کی طرف منتقل کردیا گیا ہے۔ اور لفظ مَعْيِشَة، مَعِيْشَة بن گیا۔ پھراس واحد کی جب جمع بن گئی تو ’ی‘ کی طرف حرکت پھر لوٹ آئی کیونکہ اب ثقالت باقی نہیں رہی۔ چنانچہ کہا گیا کہ معایش کا وزن مفاعل ہے، اسلئے کہ اس لفظ میں ’ی‘ اصل ہے بخلاف مدائن، صحائف اور بصائر کے کہ یہ مدینہ، صحیفہ اور بصیرة کی جمع ہیں ، چونکہ’ی‘ اس میں زائد ہے ، لہٰذا جمع بروزن فَعَائل ہوگی اور ہمزہ بھی آئے گا“[2] ﴿وَإذْ تَأذَّنَ رَبُّکَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ… الخ﴾ (الاعراف:۱۶۷) میں لفظ تَأَذَّنَ پر اس طرح بحث کرتے ہیں : تأذن بروزن تَفَعَّلَ اذان سے مشتق ہے یعنی حکم دیا یا معلوم کرایا اور چونکہ اس آیت میں قوتِ کلام کی شان ہے، اس لئے لَيَبْعَثَنَّ کا ’ل‘ معنی قسم کا فائدہ دے رہا ہے، اس لئے ’ل‘ کے بعد ہی یبعثن لایا گیا۔ عَلَيْهِمْ کی ضمیر یہود کی طرف ہے۔‘‘[3] لغوی بحث کی عمدہ مثال ہمیں زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تفسیر میں نظر آتی ہے۔ ابن کثیر لفظ ’صلوٰة‘ کی تحقیق فرماتے ہیں : ”عربی لغت میں ’صلوٰة‘ کے معنی دعا کے ہیں ، اعشیٰ کا شعر ہے : لها حارس لا يبرح الدهر بيتها وان ذبحت صلی عليها و زمزما یہ شعر بھی اعشیٰ سے منقول ہے : وقابلها الريح فی دنها وصلی علی دنها وارتسم ان اشعار میں ’صلوٰة‘ کا لفظ دعا کے معنوں میں استعما ل ہوا ہے۔ شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز پرہے۔ یہ رکوع و سجود اور دوسرے خاص اَفعال کا نام ہے جو جملہ شرائط، صفات اور اقسام کے
[1] (۲) ناشکری انسانی طبیعت اظہارِ استغناء کے لئے تمول کی خواہشمند اور دولت و ثروت کی طلب گار ہے۔ اس کی لامتناہی طلب کا پیٹ سونے کی وادیاں بھی نہیں بھر سکتیں ۔ اس لئے سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود انسان خدا کا ناشکرا ہی رہتا ہے: ﴿اِنَّ الاْنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ وَاِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَھِیْدٌ وَّاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ﴾ (العادیات ۱۰۰:۸،۷،۶) ’’بے شک انسان اپنے پروردگار کا ناشکرگزار اور خود اس پر گواہ ہے اور وہ مال کا سب سے زیادہ چاہنے والا ہے‘‘ انسان میں یہ ناشکری کبھی تو حالات سے مایوسی و ناامیدی کے بعد پیدا ہوتی ہے ﴿اِنَّہٗ لَیَئُوْسٌ کَفُوْرٌ﴾ (ھود ۱۱:۹) ’’بے شک وہ مایوس اور ناشکرا ہے‘‘ … اور کبھی مصائب و آلام سے آزادی کے بعد خوشحالی بھی اسے خدا کا ناشکرا بنا دیتی ہے۔ جب کشتی گرداب میں چکراتی ہے تو حالت ِاضطراب میں اللہ کے سامنے ہاتھ اُٹھ جاتے ہیں لیکن ﴿فَلَمَّا نَجّٰکُمْ اِلٰی الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا﴾(الاسراء ۱۷:۶۷) ’’پھر جب تمہیں خشکی کی طرف نجات دے دی تو تم اِعراض کرنے لگے، کیونکہ انسان ہے ہی ناشکرا !‘‘