کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 47
ثابت کرتے ہیں اور اکثر جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں مثلاً آیت ﴿وَمَنْ کَانَ مَرِيْضًا أوْعَلیٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أيَّامٍ أخَرَ﴾ (البقرة:۱۸۵) کے تحت ابن کثیر قضا روزوں کے مسئلہ پر جمہور کا یہ مسلک اختیار کرتے ہیں کہ قضا روزے پے در پے رکھنا واجب نہیں بلکہ یہ مرضی پر منحصر ہے کہ ایسے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے جائیں یا متواتر دنوں میں ۔[1] ابن کثیر نقل و روایت میں مقلد نہ تھے بلکہ ان کی تنقید و تردید بھی کرتے تھے،اس لئے وہ سلف کی تفسیروں کے پابند ہونے کے باوجود بعض اوقات ان کی آرا سے اختلاف بھی کرتے ہیں ، مثلاً آیت ﴿فَلَمَّا اٰتٰهُمَا صَالِحاً جَعَلاَ لَهُ شُرَکَآءَ فِيْمَا اٰتٰهُمَا… الخ﴾ (الاعراف:۱۹۰) کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت بیان کی ہے کہ حضرت حوا کی جو اولاد پیدا ہوتی، وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے مخصوص کردیتی تھیں او ران کانام عبداللہ، عبید اللہ وغیرہ رکھتی تھیں لیکن یہ بچے مر جاتے تھے۔ایک دن ابلیس حضرت آدم علیہ السلام و حوا علیہا السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تم اپنی اولاد کا کوئی اورنام رکھو گے تو وہ زندہ رہے گی۔ اب حوا علیہا السلام کا جو بچہ پیداہوا تو ماں باپ نے اس کا نام عبدالحارث رکھا۔ اسی بنا پر اللہ نے فرمایا: ﴿جعلا له شرکآء فيما اتهما﴾ ”اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے۔“ پھر ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ”اس روایت کو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان کے شاگرد مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ او رطبقہ ثانیہ کے قتادہ اور سدی وغیرہ نے نقل کیا ہے ۔ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے، لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ واقعہ اہل کتاب سے لیا گیا ہے، اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس واقعہ کو اُبی رضی اللہ عنہ بن کعب سے روایت کرتے ہیں ، جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے لہٰذا میرے نزدیک یہ اثر ناقابل قبول ہے۔“[2] سورہ حج کی آیت:۵۲ ﴿وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ وَلاَ نَبِیٍّ إلاَّ إذَا تَمَنّٰی ألْقَی الشَّيْطٰنُ فِیْ أمْنِيَّتِهِ﴾ کے متعلق ابن کثیر کو جمہور کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے، چنانچہ لکھتے ہیں : ”یہاں اکثر مفسرین نے ’غرانیق‘ کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبشہ یہ سمجھ کر کہ اب مشرکین مکہ مسلمان ہوگئے ہیں ، واپس مکہ آگئے، لیکن یہ سب مرسل روایتیں ہیں جو میرے نزدیک مستند نہیں ہیں ۔ ان روایات کو محمد بن اسحق نے سیرت میں نقل کیا ہے، لیکن یہ سب مرسل اور منقطع ہیں ۔ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور محمد بن کعب قرظی سے اس طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم کی عصمت کا محافظ خود خدا تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہوگئی؟ پھراس کے کئی جوابات دیئے ہیں ، جن میں سب سے صحیح اور قرین قیاس جواب یہ ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ مشرکین کے کانوں میں