کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 46
کرنے کیلئے حسب ِموقع عربی اشعار پیش کرتے ہیں ۔ یہ طرز غالباً انہوں نے طبری سے حاصل کیا ہے۔ آیت ﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ وَالاخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقٰی﴾(النساء:۷۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موصوف نے ابومصہر کے یہ اَشعار بیان کئے ہیں : ولا خير فی الدنيا لمن لم يکن له من اللّٰه فی دار المقام نصيب فان تعجب الدنيا رجالا فإنها متاع قليل والزوال قريب[1] ”اس شخص کے لئے دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس کو اللہ کی طرف سے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں ۔ گویا دنیا بعض لوگوں کو پسندیدہ معلوم ہوتی ہے، لیکن دراصل یہ معمولی سا فائدہ ہے اور وہ بھی ختم ہونے والاہے“ آیت ﴿وَإنِّی لاَظُنُّکَ يٰفِرْعُوْنُ مَثْبُوْرًا﴾ (بنی اسرائیل:۱۰۲) میں لفظ مثبورکے معنی ہلاک ہونا۔ ابن کثیر کہتے کہ یہ معنی عبداللہ بن زبعریٰ کے اس شعر میں بھی ہیں : إذا جار الشيطن فی سنن الغی و من مال ميله مثبور[2] ”جب شیطان سرکشی کے طریقوں پر چلتا ہے اور پھر جو لوگ بھی اس کے طریقے پر چلیں تو وہ ہلاک ہوجاتے ہیں ۔“ لغت ِعرب سے استدلال ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ تفسیرمیں لغت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اَقوال عرب کو نظائر و شواہد کے طور پر پیش کرتے ہوئے آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں مثلاً ﴿فَقَلِيْلاً مَّا يُوٴمِنُوْنَ﴾(البقرة:۸۸) کے متعلق لکھتے ہیں ”اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ایمان نہیں رکھتے، جیسے عرب کہتے ہیں ”قلما رأيت مثل هذا قط“ مطلب یہ ہے کہ میں نے اس جیسا بالکل نہیں دیکھا“[3] ﴿يَسْئلُوْنَکَ مَاذَا أحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَکُمُ الطِّيِّبٰتِ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِيْنَ﴾ (المائدة:۴) کی تفسیر میں لفظ ’جوارح‘ کو زیربحث لاتے ہوئے لکھتے ہیں : ”شکاری حیوانات کو ’جوارح‘ اس لئے کہا گیا ہے کہ ’جرح‘ سے مراد کسب او رکمائی ہے، جیسے کہ عرب کہتے ہیں : فلان جرح أهله خيراً یعنی فلاں شخص نے اپنے اہل و عیال کے لئے بھلائی حاصل کرلی ہے۔ نیز عرب کا ایک قول یہ بھی ہے: فلان لا جارح له ”یعنی فلاں شخص کا کوئی کمانے والانہیں “[4] جمہور مفسرین اور ابن کثیر ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں متقدمین علماءِ تفسیر کے مختلف اَقوال کا قدرِ مشترک تلاش کرکے اس کو ہم معنی
[1] انسانی کی یہی کمزوری اپنی دوسری حیثیت میں انسان کے لئے پیغامِ رحمت، نوید ِمغفرت اور آیت ِتخفیف بن گئی:﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا﴾ (النساء ۴:۲۸) ’’اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے بوجھ کو ہلکا کردے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘ (۱) مایوسی انسان دنیا میں اپنی کامیابی کے منصوبے بناتا ہے، دوسروں سے توقعات وابستہ کرتا ہے، خواہشات کے محل کھڑے کرتا ہے لیکن حقائق کی تلخیوں سے ٹکرا کر اس کی یہ خواہشات و توقعات اور منصوبے شکست و ریخت کا شکار ہوتے رہتے ہیں ۔ اس ناکامی میں کہیں تو اس کی فطری عجلت پسندی اور جلد بازی کا ہاتھ ہوتا ہے تو کہیں وسائل اور حالات کے اِدراک سے عاری منصوبہ بندی کا کردار۔ اپنی ناکامی میں اپنی عملی کوتاہیوں کا مبنی برحقیقت تجزیہ کرنے کی بجائے وہ مایوسی کے گڑھے میں جاگرتا ہے: ﴿وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ اِذَا ھُمْ یَقْنَطُوْنَ﴾ (الروم ۳۰:۳۶) ’’اور جب ان کے اپنے کئے کرتوتوں سے ان پر مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں ‘‘ ۔ انسان چونکہ تھڑدِلا پیدا کیا گیا :﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا﴾ اس لئے نعمت کے ملنے پر تو اِٹھلاتا پھرتا ہے لیکن جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو جلد ہی مایوس ہوجاتا ہے: ﴿وَاِذَا مَسَّہٗ الشَّرُّ کَانَ یَؤٗسًا﴾(الاسراء، ۱۷:۸۳) انسان کی اسی سرشت کی طرف اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر اِشارہ فرمایا: ﴿وَاِنْ مَّسَّہٗ الشَّرُّ فَیَؤٗسٌ قَنُوْطٌ﴾ (فصلت ۴۱:۴۹) ’’اور جب کوئی آفت اس پر آجاتی ہے تو وہ مایوس اور دل شکستہ ہوجاتا ہے‘‘