کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 45
”جن جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن کی بعض چیزوں کی حیثیت محض تعبدی ہے، وہ شدید غلطی پر ہیں ۔ یہ تو بہرحال متعین ہے کہ ان حروف (مقطعات) کے کوئی نہ کوئی معنی ضرور ہیں ، خدا نے ان کو عبث نازل نہیں فرمایا، اگر ان کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات ثابت ہوگی تو ہم اسے بیان کریں گے اور اگر حدیث سے کوئی بات معلوم نہ ہوگی تو ہم توقف کریں گے اور یہ کہیں گے کہ ﴿آمَنَّا بِهِ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَتَذَکَّرُ إلاَّ أوْلُوْا الألْبَابِ﴾ حروفِ مقطعات کے متعلق علمائے امت کا کسی ایک قول اور مفہوم پر اجماع نہیں ہے بلکہ اختلافات ہیں ، اس لئے اگر کسی دلیل سے کسی کے نزدیک کوئی مفہوم زیادہ واضح ہے تو اس کو وہ مفہوم اختیار کرلینا چاہئے، ورنہ حقیقت ِحال کے انکشاف تک توقف کرنا چاہئے۔“[1] ابن کثیر نے زیربحث کتاب میں حروفِ مقطعات پر عمدہ بحث کی ہے، اس سلسلے میں وہ مختلف مفسرین کے اَقوال کی روشنی میں ان کے معانی و مفاہیم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔[2] فضائل سور و آیات تفسیر ابن کثیر میں سورتوں اور آیتوں کے فضائل و خصوصیات ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کاان پر تعامل اور امت کو ترغیب و تلقین کا تذکرہ بھی پایا جاتا ہے۔ ا س سلسلے میں ابن کثیر نے اہم کتب ِاحادیث کے علاوہ امام نسائی کی معروف تصنیف عمل اليوم والليلة اور امام بیہقی کی کتاب الخلافيات سے بھی استفادہ کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں سورة بقرہ اور سورہ آل عمران کے فضائل کا مفصل بیان ہے۔ اسی طرح آیت ﴿وَلَقَدْ اٰتَيْنَاکَ سَبْعاً مِنَ الْمَثَانِیْ﴾ (الحجر:۸۷) کے تحت سبع مثانی کی تفسیر میں سات مطول سورتوں بشمول سورة البقرہ و آل عمران کے فضائل و خصائص تحریرکئے گئے ہیں ۔[3] امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ سورة حشر کی آخری تین آیتوں کے متعلق فرماتے ہیں : ”مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ أعوذ باللّٰه السميع العليم من الشيطن الرجيم پڑھ کر سورة حشر کی آخری تین آیتوں کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہوجائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص انکی تلاوت شام کے وقت کرے ، وہ بھی اسی حکم میں ہے۔‘‘[4] امام صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے سب سے اعلیٰ چیز معوذتین یعنی سورة الفلق اور سورة الناس ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں ۔ اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔‘‘[5] اشعار سے استشہاد ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ایک انداز یہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ کسی آیت کے معنی و مفہوم کو واضح