کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 44
جنت اس لئے کہ تبلیغ رسالت کے صلہ میں آپ کا ٹھکانہ وہی ہوگا۔[1] قرآنی آیات کا ربط و تعلق ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ قرآن مجید کے ربط و نظم کا تذکرہ بھی کرتے ہیں ۔ وہ اپنی تفسیر میں آیات کے باہمی تعلق اور مناسبت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قرآنِ پاک ایک مربوط و منظم کتاب نظر آتی ہے، اس سلسلے میں متعدد مثالیں تفسیر ابن کثیر میں نظر آتی ہیں ، مثلاً آیت ﴿إنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسَاکِيْنَ… الخ﴾ (التوبہ:۶۰) کے سلسلے میں رقم طراز ہیں : ”سورة توبہ کی آیت:۸۵ ﴿وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ … الخ﴾ میں ان جاہل منافقوں کا ذکر تھا جو ذاتِ رسول پر تقسیم صدقات کے سلسلے میں اعتراض کرتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں فرمایا کہ تقسیم زکوٰة پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے، ہم نے خود اس کی تقسیم کردی ہے، کسی او رکے سپرد نہیں کی۔“[2] ﴿اُولٰئِکَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا… الخ﴾(الفرقان:۷۵، ۷۶) کے متعلق فرماتے ہیں ”چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیات میں اپنے موٴمن بندوں کے پاکیزہ اَوصاف اور عمدہ طور طریقوں کا ذکر کیا تھا، اس لئے اس کی مناسبت سے اس آیت میں ان کی جزا کا ذکر کیاہے۔“[3] قرآن مجید میں بعض مقامات پر موٴمن او رباطل فرقوں کے لئے اُسلوبِ تقابل اختیار کیا گیا ہے جو اس کے منظم و مربوط ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں بھی آیتوں کی مناسبت اور ان کاباہمی ربط بیان کیا ہے، مثلاً ﴿وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ…الخ﴾ (البقرة:۲۵) کے بارے میں تحریر کرتے ہیں : ”چونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے دشمنوں یعنی بدبخت کفار کی سزا اور رسوائی کا تذکرہ کیا تھا، اس لئے اب اس کی مناسبت سے یہاں اس کے مقابلہ میں اپنے دوستوں یعنی خوش قسمت ایماندار صالح و نیک لوگوں کے اَجر کا ذکر کر رہا ہے، اور صحیح قول کے مطابق قرآن مجید کے ’مثانی‘ ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایمان کے ساتھ کفر اور سعادت مندوں کے ساتھ بدبختوں یا اس کے برعکس یعنی کفر کے ساتھ ایمان اور بدبختوں کے ساتھ سعادت مندوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگرکسی چیز کے ساتھ اس کے مقابل کاذکر کیا جائے تو یہ ’مثانی‘ کہلائے گا اور اگر کسی چیز کے ساتھ اس کے ’امثال و نظائر‘ کا تذکرہ کیا جائے تو یہ ’متشابہ‘ ہوگا۔“[4] حروفِ مقطعات پر بحث حروفِ مقطعات کے بارے میں امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کا نقطہ نظر یہ ہے:
[1] اِنسانی فطرت میں چند ایسی کمزوریاں پنہاں ہیں جن کا اِدراک کئے بغیر نہ تو اس کی انفرادی شخصیت کی صحیح تعمیر ممکن ہے اور نہ ہی اجتماعی اِصلاح و تربیت اور نفوسِ انسانی کے تزکیہ کی کٹھن منزل سر کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ انسان اپنی ذ ہنی و عقلی قوتوں کی بنیاد پر اس کائنات میں جتنا سربلند ہے، اتنا ہی اپنی خلقت وفطرت میں موجود کمزوریوں کی و جہ سے ضعیف و ناتواں بھی ہے﴿خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا﴾ قرآنِ کریم میں انسانی طبیعت کی ان کمزوریوں کا جابجا ذکر ملتا ہے جن کے متعلق یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر انسان اپنی ان خلقی حالتوں پر غور کرتا رہے تو اس کی بہت سی معاشرتی کوتاہیوں اور عبادت و بندگی سے متعلق غفلت و جہالت کا علاج ممکن ہے۔ فطرتِ انسانی کی یہی کمزوریاں ہیں جو برائیوں کا سرچشمہ، گناہوں کی جڑ اور بدکاری کی بنیاد ہیں ۔ لیکن چونکہ ربّ ِکائنات کی رحمت ہر شے پر محیط ہے: ﴿وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْیٍٔ﴾ (الاعراف ۸:۱۵۶) …اور وہ کسی نفس کو بھی اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہ دے گا: ﴿لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا﴾ (البقرہ ۲:۲۸۶) اس لئے فطرتِ