کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 43
کا یہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینے پر نظر رکھے۔ قاضی شریک کہتے ہیں کہ نمازی قیام میں سجدے کی جگہ نظر رکھے جیسے کہ جمہور علماء کا قول ہے، اس لئے کہ اس میں پورا پورا خشوع خضوع ہے۔ اس مضمون کی ایک حدیث بھی موجود ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور قعدہ کی حالت میں اپنی آغوش کی طرف“[1]
﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ﴾ (البقرة: ۱۸۵) کی تفسیر میں موٴلف نے چار مسائل ذکر کرکے اس بارے میں علماء کے مختلف مسالک اور ان کے براہین و دلائل بیان کئے ہیں : [2]
سورہ نساء کی آیت:۴۳، کے تحت تیمم کے مسائل اور احکام ذکر کئے گئے ہیں ۔[3]
﴿لاَيُوٴاخِذُکُمُ اللّٰهُ بِالَّلغْوِ فِیْ أيْمَانِکُمْ…… الخ﴾ (المائدة:۸۹) کے تحت قصدا ً قسم کے سلسلے میں کفارہ اَدا کرنے کے مسائل بیان کئے گئے ہیں ۔[4]
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فقہی سائل میں عموماً شافعی مسلک کی تائید کرتے ہیں ۔
روایات و اَقوال میں تطبیق
ابن کثیر مختلف و متضاد روایات میں جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اوران کے مابین محاکمہ کرتے ہیں ، مثلاً سورة آلِ عمران کی آیت :۱۶۹ ﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ أمْوَاتًا بَلْ أحْيآءٌ عِنْدَرَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ﴾کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
”صحیح مسلم میں ہے، مسروق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ہم نے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور ان کے لئے قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹک رہی ہیں ۔ وہ ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں ، کھائیں ، پئیں اور ان قندیلیوں میں آرام کریں ، لیکن مسنداحمد میں ہے کہ شہید لو گ جنت کے دروازے پر نہرکے کنارے سبزگنبد میں ہیں ، صبح و شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں ۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض وہ ہیں جن کا ٹھکانہ یہ گنبد ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں او رپھر انہیں یہیں کھانے کھلائے جاتے ہوں ۔ واللہ اعلم!“ [5]
آپ مختلف تفسیری اَقوال میں بھی تطبیق دیتے ہیں مثلاً سورہ قصص کی آیت:۸۵ ﴿لَرَآدُّکَ إلٰی مَعَادٍ﴾ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے تین قول نقل کئے ہیں : (۱)موت (۲)جنت اور(۳) مکہ۔ ان تینوں اَقوال میں یہ تطبیق دی ہے کہ مکہ کا مطلب فتح مکہ ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی قربت کی دلیل ہے اور روزِقیامت مراد لینے کامطلب یہ ہے کہ وہ بہرحال موت کے بعد ہی ہوگا اور