کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 42
”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے روز تین قیدیوں کے قتل کا حکم دیا تھا: (۱) عقبہ بن ابی معیط (۲) طعیمہ بن عدی اور(۳) نضر بن حارث… سعید بن جبیر نے ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام بتایا ہے۔یہ بات غلط ہے، کیونکہ مطعم بن عدی تو بدر کے روز زندہ ہی نہیں تھا، اس لئے اس روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان مقتولین میں سے کسی کا سوال کرتا تو میں اس کو وہ قیدی دے دیتا۔ آپ نے یہ اسلئے فرمایاتھا کہ معطم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تحفظ دیا تھا جب آپ طائف کے ظالموں سے پیچھا چھڑا کر مکہ واپس آرہے تھے“[1] شانِ نزول کا بیان اگر کسی سورة یا آیت کا شانِ نزول ہے توامام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں ، مثلاً سورة بقرہ کی آیت:۱۰۹ ﴿وَدَّکَثِيْرٌ مِّنْ اهْلِ الْکِتَابِ لَوْيَرُدُّوْنَکُمْ مِنْ بَعْدِ اِيْمَانِکُمْ… الخ﴾ کے تحت لکھتے ہیں : ”ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عرب یہودیوں میں حیی بن اَخطب اور ابویاسر بن اَخطب دونوں مسلمانوں کے شدید ترین حاسد تھے اور وہ لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے۔جہاں تک ان کا بس چلتا وہ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، زہری کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف شاعر تھا اور وہ اپنی شاعری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی“[2] سورة اِخلاص کا شانِ نزول اس طرح بیان کیا ہے : ”مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنے رب کے اوصاف بیان کرو، اس پر یہ آیت اتری، اور حافظ ابویعلی موصلی کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوا ل کیا تھا، اس کے جواب میں یہ سورة اُتری“[3] فقہی اَحکام کا بیان ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اَحکام پر مشتمل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فقہی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فقہا کے اِختلافی اقوال و دلائل بھی بیان کرتے ہیں ، مثلاً سورة بقرہ کی آیت ﴿ قَدْ نَریٰ تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِیْ السَّمَاءِ … الخ﴾ کے تحت لکھتے ہیں : ”مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت ِنماز میں اپنی نظریں اپنے سامنے رکھے نہ کہ سجدہ کی جگہ جیسا کہ شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، احمد رحمۃ اللہ علیہ او رابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے۔ اس لئے کہ آیت کے لفظ یہ ہیں ﴿فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ ”یعنی مسجدحرام کی طرف منہ کرو اور اگر وہ سجدہ کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو اسے قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ جھکنا مکمل قیام کے منافی ہوگا۔ بعض مالکیہ
[1] شاہ ولی اللہ، حجة اللّٰه البالغہ