کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 40
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کئی تصانیف کے حوالے بھی تفسیرمیں دیئے ہیں ، مثلاً البدایہ والنھایہ، کتاب السیرة، الاحکام الکبیر، صفة النار، اَحادیث الاصول، جزء فی ذکر تطہیر المساجد، جزء فی الصلوٰة الوسطیٰ، جزء فی ذکر فضل یوم عرفہ، جزء فی حدیث ِالصور وغیرہ ۔[1] منہج : ذیل میں تفسیر ابن کثیر کے منہج کا تذکرہ بالاختصار پیش خدمت ہے : تفسیر کے اصولوں کا التزام علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے زیر تبصرہ کتاب کا نہایت مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے اور تفسیر کے درج ذیل اُصول متعین کئے ہیں : تفسیر القرآن بالقرآن تفسیر القرآن بالسنہ تفسیر القرآن باقوال الصحابہ تفسیر القرآن باقوال التابعین[2] یہ مرکزی او ربنیادی اُصول تفسیر ابن کثیر میں یکساں طور پر بالترتیب نظر آتے ہیں ۔ امام موصوف سلیس اور مختصر عبارت میں آیات کی تفسیر کرتے ہیں ۔ ایک آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے کئی قرآنی آیات یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں اور اس سے متعلق جملہ معلوم احادیث ذکر کرتے ہیں ، بعدازاں صحابہ، تابعین اورتبع تابعین کے اقوال و آثار درج کرتے ہیں ۔ اسی انداز میں مثالیں ان کی تفسیر میں بکثرت پائی جاتی ہیں ۔ سورة المومنون کی آیت:۵۰ ﴿وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأمَّهُ آيَةً وَاٰوَيْنٰهُمَا إلیٰ رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِيْنٍ﴾ کی تفسیر میں متعدد روایات و اَقوال نقل کئے ہیں اور مختلف مفاہیم بیان کئے ہیں ۔ ایک مفہوم کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ”یہ مفہوم زیادہ واضح اور ظاہر ہے، اس لئے کہ دوسری آیت میں بھی اس کا تذکرہ ہے، اور قرآن کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر کرتے ہیں اور یہی سب سے عمدہ طریقہ تفسیر ہے، اس کے بعد صحیح حدیثوں کا اور ا ن کے بعد آثار کا نمبر آتا ہے“[3] نقد و جرح حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ایک بلند پایہ محدث تھے، اس لئے انہوں نے محدثانہ طریق پر یہ کتاب مرتب کی ہے اور نہایت احتیاط سے صحیح حدیثوں کے انتخاب کی کوشش کی ہے۔ وہ دورانِ بحث جرح و تعدیل کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح روایات کو نکھار کر پیش کرتے ہیں ، بعض روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ غلط اور فاسد روایتوں کی تردید کرتے ہیں ، مثلاً آیت ﴿يَوْمَ نَطْوِي السَّمَآءَ کَطَيِّ السِّجِلِّ
[1] کنزالعمال، جلد پنجم، صفحہ ۸۲۵، حدیث نمبر ۱۴۴۹۵ [2] موطا ٴامام مالک، کتاب المساقات، جلد اول، صفحہ ۵۱۶ [3] ابوداؤد، کتاب الخراج ولامارة، باب فی کراهية الافتراض فی آخرالزمان، جلد سوم، صفحہ ۱۳۷، حدیث نمبر ۲۹۵۹، (المکتبة العصریہ ، بیروت) [4] ایضا ً