کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 37
ہوتی ہے لہٰذا یہاں لاَ کا ہی ذکر مناسب ہے۔لَنْ اور لاَ میں فرق کی ظاہر وجہ یہ ہے کہ لا کے آخر میں الف ہے جو کہ وسعت او رپھیلاؤ کے ساتھ اپنے مخرج سے نکلتا ہے، اس لئے اس کے معنی میں بھی وسعت ہی مراد ہوگی۔ لیکن لَنْ کے آخر میں ’ن‘ ہے جس کے مخرج میں اِمتداد اورپھیلاؤ نہیں ہے۔ ا س لئے اس کے معنی بھی محدود ہیں ۔ ان کا واضح فرق حسب ِذیل آیتوں سے بخوبی ہوسکتا ہے: لَنْ تَرَانِیْتو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا یہاں رؤیت ِالٰہی کی نفی ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ ایک و قتی نفی اور انکار مراد ہے جبکہ لاَ تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُنگاہیں ذات باری کا اِدراک نہیں کرسکتیں سے دائمی نفی مراد ہے،اسی لئے لا بیان کیا گیا ․ لَنْ يَّتَمَنَّوْہ اَبَدًا (سورہ بقرہ) لاَيَتَمَنَّوْنَه اَبَدًا (سورہ جمعہ) ان دونوں آیتوں میں اندازِ بیان کے فرق کا راز بھی مذکورہ بالا قاعدہ کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ (بدائع : ۱/۹۶) س ۶: اس سورت میں نفی محض ہے، حالانکہ توحید کے دو پہلو ہیں نفی اور اثبات…؟ جواب: اس سورة میں غیر اللہ کی عبادت کی نفی اور شرک سے بار بار برأت کی گئی ہے۔ یہ اس سورة کی خاص خوبی اور اہم مقصد ہے، اسی لئے موحدین اور مشرکین دونوں گروہوں کے بیان میں لائے نفی ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اس نفی کے ساتھ اثبات بھی ہے لاَ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ میں عبادتِ غیر سے صرف انکار وبرأت ہے۔ وَلاَ اَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ میں اس بات کا اعلان ہے کہ میرا ایک معبود ہے جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور تم اس سے الگ ہو۔ پس نفی و اثبات اس سورت میں یکجا ہوگئے۔ امامِ حنفاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اعلان بھی اسی کے ہم معنی ہے: ﴿اِنَّنِیْ بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ اِلاَّ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ﴾”بے شک میں ان سے بری اور بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو مگر وہ جس نے مجھ کو پیدا کیا۔‘‘ اور یہی مطلب ہے گروہِ موحدین اصحاب الکہف کے اس قول کا ﴿وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ اِلاَّ اللّٰهَ﴾”اور جبکہ تم ان (مشرکین) سے الگ ہو گئے اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے مگر اللہ سے۔‘‘ غورکریں تو واضح ہوجائے گا کہ اس سورة الکافرون میں بھی لا الہ الا اللہ کی حقیقت پوری طرح جلوہ گر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور مغرب کی سنتوں میں سورة الاخلاص اور اس سورت کو پڑھا کرتے تھے۔ یہ دونوں سورتیں توحید کی دو قسموں کو شامل ہیں جن کے بغیر بندے کی نجات و فلاح ناممکن ہے۔
[1] ابوداؤد، کتاب العرافة، حدیث نمبر ۲۹۳۳ [2] ایضا ً، حدیث نمبر ۲۹۳۴ [3] الترغیب والترہیب، جلد دوم، صفحہ …؟ [4] ایضا ً [5] محمد شفیع مفتی، معارف القرآن، جلد سوم، صفحہ ۱۵۱۔۱۵۲