کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 36
س۳: اس میں کیا حکمت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو أعبد (مضارع کا صیغہ)استعمال کیا گیاہے اور کفار کے ذکر میں ماضی، مضارع دونوں قسم کے صیغے موجود ہیں ؟
جواب:اس اندازِ بیان سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معبود ہر زمانہ میں ایک ہی ہے۔ سیدھی راہ سے نہ پہلے کبھی کجی / ٹیڑھا پن ہوا ہے اور نہ کبھی آئندہ ہوسکتا ہے بخلاف مشرکین کے کہ وہ دراصل اپنی خواہشات اور جذبات کی پیروی کرتے ہیں ۔ آج ایک معبود کی عبادت کی توکل دوسرے کے سامنے سرجھکا دیا۔ ہر زمانہ میں ایک نیا معبود تراش لیتے ہیں ۔ اس لئے تَعْبُدُوْنَ اور عَبَدْتُّمْ ماضی، مضارع دونوں کو بیان کردیا۔
س ۴: مشرکین کے بیان میں عَابِدُوْنَاسم فاعل کا صیغہ دونوں بار لایا گیا ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر میں ایک مرتبہ مضارع أَعْبُدُ اور دوسری آیت میں اسم فاعل عَابِدٌ بیان ہوا ہے۔ اس کی حکمت کیا ہے ؟
جواب:اس سورت کا مقصود یہ ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے معبودانِ باطل سے قطعی براء ت اور بیزاری ظا ہر کردیں ۔ لاَ اَعْبُدُکے معنی ہیں کہ میں ہر وقت ہر طرح سے اس عبادت سے بیزار ہوں ۔ وَلاَ اَنَا عَابِدٌ کے معنی ہیں کہ غیر اللہ کی عبادت کے وصف سے میں یکسر خالی اور بری ہوں ۔ نہ عارضی طور پر میں شرک کرسکتا ہوں نہ دائمی طور پر۔ وَلاَ اَنْتُمْ عاَبِدُوْنَ کا منشا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا وصف دائمی طور پر ان میں نہیں پایا جاسکتا۔ کبھی وہ خدا کی طرف جھک جاتے ہیں اور کبھی اپنے خود ساختہ معبودوں کی پرستش کرنے لگتے ہیں ۔ یہ دوام و استقلال تو اسی کو حاصل ہوسکتا ہے جوصرف ایک خدا کا عبادت گزار بنا رہے، اسی لئے وَلَا اَنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ نہیں کہا گیا۔ خدا کی عبادت تو وہ بھی کرتے ہیں مگر شرک کی آلائشوں کے ساتھ۔ مطلقاً عبادتِ الٰہی کی ان سے نفی نہیں کی گئی بلکہ ان کی صفت ِ’عابدیت‘ کا انکار کیا گیا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے جو خدا کے ساتھ عبادت میں دوسروں کو شریک کرتا ہے، وہ خدا کا عابد کہلاہی نہیں سکتا۔ اس نکتہ کو سمجھ لینے کے بعد عبد کا مقام پوری طرح ظاہر ہوگیا۔ عبد یا عابد وہ ہوسکتا ہے جو بالکلیہ تمام معبودانِ باطل سے کٹ کر یکسوئی کے ساتھ خدا کے دامن سے وابستہ ہوجائے، اس تفسیر کے بیان سے اس امرکی وجہ بھی ظاہر ہوگئی کہ اس سورة کا نام ’اِخلاص‘بھی کیوں ہے او ریہ چوتھائی قرآن کے ہم پلہ کیسے ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سورة میں توحید کا مغز بھرا ہوا ہے۔
س۵: یہاں نفی کے واسطے لَنْ کے بجائے لاَ کیوں لایا گیا ہے، حالانکہ لَن میں بظاہر تاکید زیادہ پائی جاتی ہے
جواب: لَن میں میں صرف زمانہٴ مستقبل کی نفی ہوتی ہے او رلا کی نفی پوری طرح حال اور مستقبل میں جاری
[1] ؟
[2] ابوداؤد، کتاب الخراج والامارة، باب السعايه علی الصدقة، جلد سوم، صفحہ ۱۳۲، حدیث نمبر ۲۹۳۷
[3] منذری، الترغیب والترہیب، باب ليستجاب الدعا من کل أحد ال االزانی والعشار: ۲/۸۷
[4] ایضا ً
[5] ایضا ً
[6] ایضا ً