کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 35
کتاب وحکمت افادات : علامہ ابن قیم جوزی تحریر:مولانا عبد الغفار حسن تفسیر سورة الکافرون س ۱: ﴿لاَ اَعْبُدُ ’مَا‘ تَعْبُدُوْنَ وَلاَ اَنْتُمْ عَابِدُوْنَ ’مَا‘ اَعْبُدُ﴾ یہاں بجائے مَنْ کے جو عقلاء کے لئے بولا جاتا ہے، مَا کیوں استعما ل کیا گیا ہے جوکہ دراصل غیر عقلاء پراستعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا اِطلاق اللہ تعالیٰ پر کیسے درست ہوا؟ جواب:یہاں ایسے معبود کا ذکر مقصود ہے جو صحیح معنی میں عبادت کے لائق ہو۔ مَا کے ذکر سے اسی صفت کی طرف اشارہ ہے۔ مَنْ کے بیان سے یہ مقصود حاصل نہ ہوسکتا،اس سے مراد صرف ذات ہوتی ہے یعنی ایسی ذات جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور مَا کی صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ میں اس کی عبادت کرتا ہوں جوکہ عبادت کا اہل اور مستحق ہے۔ اس طرح سے باری تعالیٰ کی عبادت کرنے کی وجہ بھی معلوم ہوتی ہے۔ یہی معنی ہیں محققین نحویوں کے اس قول کے کہ ’ما‘ کاذکر صفات کے اظہار کے لئے ہوتا ہے۔ اس کی نظیر یہ آیت ہے ﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاءِ﴾ ”نکاح کرو جو تم کو بھلی لگیں عورتوں میں سے۔‘‘ یہاں اصل مقصودصفت ہے ، اسی بنا پر مَا ذکر کیا گیاہے۔ س۲: اس سورة میں ایک ہی مفہوم کو بار بار کیوں دہرایا گیا ہے؟ جواب: ﴿لاَ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ﴾ میں عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو۔ یعنی نہ تو اب میں زمانہٴ حال میں تمہارے معبودوں کی عبادت کرتا ہوں ، نہ آئندہ کروں گا اور اس کے مقابلہ میں ہے: ﴿وَلاَ أَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَا أَعْبُدُ﴾ اور نہ میں عبادت کرنے والا ہوں جس کی تم نے عبادت کی یعنی وحی الٰہی آنے سے پہلے میں شرک سے بچا ہوا تھا۔ ماضی کا صیغہ لاکر اسی مفہوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ گویا آیت کے معنی یہ ہوئے لم أعبد قط ما عبدتم ”میں نے کبھی بھی ان کی عبادت نہیں کی جن کی تم کرتے ہو“ اوریہ معنی اس کے مقابل آیت ﴿وَلاَ أَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَا أَعْبُدُ﴾ کے ہیں یعنی جس کی میں ہمیشہ عبادت کرتا رہا ہوں ، اس کی تم نے گذشتہ زمانہ میں بھی عبادت نہیں کی۔اس تفسیر کی بنا پر تکرارِ افعال کا اعتراض اٹھ گیا اور سورت نفی کے تمام زمانوں (ماضی اور حال ومستقبل) کو شامل ہوگئی۔
[1] ایضا ً، باب فی الغلول اذا کان يسيرا يترکه الامام ولا يحرق رحله ، حدیث نمبر ۲۷۱۲ [2] مسلم، کتاب الامارة، (حاشیہ مترجم) جلد پنجم، صفحہ ۱۲۳ [3] ابوداود، ابن ماجہ، نسائی اور موطا امام مالک میں اس روایت کا ذکر ہے، آپ نے فرمایا : ”إن صاحبکم قد غل فی سبیل اللہ“ تمہارے ساتھی نے اللہ کے مال میں سے بددیانتی کی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ یہ بددیانتی صرف حقوق العباد میں غصب نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے حقوق میں بھی مداخلت ہے۔ روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ جب اس کا سامان کھولا گیا تو اس میں یہودیوں کے چند موتی (منکے) اس میں پائے گئے، ابوداود، کتاب الجہاد، باب فی تعظيم الغلول، جلد سوم، صفحہ ۶۸، حدیث نمبر ۲۷۱۰۔۲۷۱۱ [4] ابن قدامہ، المغنی، تحقیق الدکتور عبداللہ بن عبدالمحسن تربی اور الدکتور عبدالفتاح محمد الحلو:۳/ ۵۰۴